کشمیری رہنما یاسین ملک کی حالت غلط انجکشن لگنے سے انتہائی تشویشناک‘ دائیں بازو نے کام چھوڑ دیا : خبر ملتے ہی اہلیہ مشال بے ہوش
سرینگر (نیٹ نیوز + ایجنسیاں) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے کشمیریوں پر مظالم 106 ویں روز بھی جاری رہے۔ فائرنگ‘ شیلنگ اور لاٹھی چارج سے مزید38 افراد زخمی، 52 گرفتار کرلئے گئے۔ کئی علاقوں میں پھر سے غیراعلانیہ کرفیو نافذ۔ مظاہرین نے ایک فوجی گاڑی نذرآتش کردی۔ مقبوضہ وادی میں احتجاجی لہر کے 106 ویں روز شہر سرینگر میں 6 پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں بشمول شہر خاص اور بٹہ مالو کے علاوہ جنوبی قصبہ پانپور میں اعلانیہ کرفیو نافذ رہا۔ بیروہ بڈگام میں سینکڑوں مظاہرین نے ایک احتجاجی جلوس نکالا جبکہ چاڈورہ، بیروہ، کھاگ، خانصاحب میں ہڑتال کی وجہ سے کرفیو جیسا سماں تھا۔ ادھر ناربل میں شام کے وقت نوجوان مشتعل ہوئے اور انہوں نے فورسز پر زبردست پتھراﺅ شروع کیا۔ کئی علاقوں میں مظاہرین نے پھر پاکستانی اور چینی پرچم لہرا دئیے۔ سینکڑوں لوگوں نے بارہ مولا کے علاقہ پلہالن اور شوپیاں کے علاقے شرمال میں سڑکوں پر نکل کر بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں مظاہرہ کئے جبکہ بھارتی پولیس اہلکاروں نے سرینگر کے علاقے مائسمہ میں بھی عوامی مظاہرے کے شرکاءپر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ مظاہرین جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی کی قیادت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے غیرقانونی طورپر نظربند چیئرمین یاسین ملک کی ہمشیرہ نے کی۔ وہ بھی بھارتی فورسز کی شیلنگ سے نڈھال ہو گئیں۔ مظاہرین یاسین ملک کو علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دریں اثنا حریت رہنما یاسین ملک کو انتہائی تشویشناک حالت کے پیش نظر سرینگر کے مہاراجہ ہسپتال میں آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔ ان کے خاندانی ذرائع نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ یاسین ملک کے دائیں بازو نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ خبر ملتے یاسین ملک کی اہلیہ جو اسلام آباد میں ہیں‘ بے ہوش ہو گئیں۔ قبل ازیں مشال ملک سے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے ان کے گھر پر ملاقات کی۔ مشال ملک نے بتایا کہ ان کے شوہر کو 5 روز سے پانی نہیں دیا جا رہا۔ ان کی حالت تشویشناک ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یاسین ملک کو انسانی ہمددی کی بنا پر علاج معالجے کی سہولتیں دی جائیں اور کشمیری قیادت کو بھارت فوری رہا کرے۔ دوسری طرف مشال ملک کو بے ہوش ہو جانے پر مقامی ہسپتال میں امداد کے بعد حالت بہتر ہونے پر گھر منتقل کر دیا گیا۔ مشال کی والدہ نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ یاسین ملک کو دوران حراست غلط انجکشن لگایا گیا جس سے ان کی حالت خراب ہوئی۔ انہیں فوری ہسپتال پہنچانا چاہئے تھا۔ غلط انجکشن لگانے سے ان کا بازو سوجھ گیا جبکہ 5 روز پانی نہ ملنے سے ان کے گردوں میں پتھری پیدا ہوئی۔ ڈاکٹروں نے پتھری کا فوری آپریشن کرانے کیلئے کہا تھا۔ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بیج بہاڑہ قتل عام کو 23 برس مکمل ہونے پر بیج بہاڑہ میں ایک ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکاءنے آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ 22 اکتوبر 1993ءکو بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے بیج بہاڑہ میں پُرامن مظاہرین پر بلااشتعال اندھادھند فائرنگ کرکے 50 کے قریب افراد کو شید جبکہ 150 سے زائد کو زخمی کردیا تھا۔ یہ لوگ حضرت بل سرینگر کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ادھر بھارتی پولیس نے سید علی گیلانی کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر نعیم گیلانی کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ اپنے بیمار والد کے ساتھ ملاقات کیلئے گھر حیدر پورہ پہنچے۔ پولیس نے نعیم گیلانی کے چھوٹے بیٹے نسیم گیلانی کو بھی اپنے والد کے ساتھ ملاقات کرنے سے روک دیا۔ سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے آگے ٹرک کھڑا کرکے بھارتی پولیس کی نفری نے محاصرہ کئے رکھا تھا اور کسی کو بھی ان کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ اس کارروائی کا مقصد سید علی گیلانی کو آج کشمیریوں سے خطاب کرنے سے روکنا تھا۔ حریت رہنماﺅں سید علی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق‘ شبیر احمد ڈار‘ محمد اقبال میر‘ محمد حسن اونتو‘ امتیاز احمد قریشی‘ غلام نبی وار‘ سید سلیم گیلانی اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے اپنے بیانات میں بھارتی پولیس کے ہاتھوں گزشتہ روز ضلع بڈگام کے علاقے نصراللہ پورہ میں کالج کے ایک طالبعلم جاوید احمد میر کے قتل کی شدید مذمت کی ہے جبکہ اسلام آباد میں دفترخارجہ پاکستان کے ترجمان نے بھی بے گناہ کشمیری طالبعلم جاوید احمد میر کو شہید کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جاوید میر کسی مظاہرے کا حصہ نہیںتھا۔ وہ اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا جسے بھارتی فوج نے ظالمانہ کارروائی کے دوران چھین لیا۔ ترجمان نفیس زکریا نے کہا کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ کرتا رہے گا۔ بھارتی فوج وہاں نسل کشی کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں حریت رہنماﺅں نے بھی جاوید میر کی شہادت پر اظہار تشویش کیا ہے۔ دوسری طرف بانڈی پورہ میں مشتعل کشمیریوں نے کٹھ پتلی وزیر دیہی ترقی راجہ عبدالحق کی گاڑی پر پتھراﺅ کیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے بھارتی فورسز نے شدید شلنگ کی جبکہ کٹھ پتلی وزیر موقع ملتے ہی وہاں سے جان بچا کر فرار ہو گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے پولیس حکام نے 27 سے زیادہ رائفلیں چھنوانے پر 10 پولیس اہلکاروں کو برطرف کر دیا۔ یہ رائفلیں مجاہدین نے ان اہلکاروں سے مختلف چوکیوں پر حملوں کے دوران چھین لی تھیں۔ علاوہ ازیں کولگام میں بھارتی فوج کے نقاب پوش ایجنٹوں نے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول کو جلا ڈالا اور فرار ہوگئے۔ دریں اثنا پاکستان اور بھارت کی فوجوں میں کنٹرول لائن پر کشیدگی کے پیش نظر بھارتی حکام نے ضلع کٹھہ‘ ہری نگر اور دیگر علاقوں میں 400 افراد کو ان کے گھروں سے بیدخل کرکے کیمپوں میں منتقل کر دیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر