2نومبر کو کیا ہونے والا ہے؟
30 اکتوبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی اور دھرنا ایک بار پھر ملتوی ہو گیا۔ عمران خان نے ریلی اور دھرنے کی اب نئی تاریخ دے دی ہے جو 2نومبر ہے۔اس تاریخ کو کیا ہو گا؟ دیکھنا اب یہی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے مطابق اسلام آباد بند ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بھی انہیں مزید چند روز انتظار کرنا ہو گا تاہم حکومت نے عمران خان کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے اپنی مکمل حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ حکومت اس بار کچھ اچھے موڈ میں نہیں۔ چند وزراء اور بعض حکومتی نمائندوں کے بیانات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس بار حکومت عمران خان سے کوئی رُو رعایت نہیں برتے گی۔ عمران خان کو شاید 2نومبر سے کچھ دیر پہلے بنی گالا یا پھر لاہور میں اُن کے اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا جائے گا۔ سپیشل برانچ نے پی ٹی آئی کے اُن سرکردہ افراد کی لسٹیں بھی تیار کی ہوئی ہیں جو تحریک کے سرگرم رکن ہیں اور ریلی اور دھرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کی نظر بندی یا گرفتاری متوقع ہے۔ شیخ رشید کے بھی نظر بند ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ اس بار اسلام آباد پی ٹی آئی کا آسان ہدف نہیں ہو گا۔ عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کی جو بات کی ہے اُسے عوامی، سماجی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے سخت ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ اس ریلی یا دھرنے میں شامل نہیں۔ صرف عوامی مسلم لیگ ہی ہے جس کے سربراہ شیخ رشید تن تنہا پی ٹی آئی کے اس احتجاج میں اُسکے ساتھ شامل ہیں۔ تاہم عوامی مسلم لیگ کو عوامی سطح پر وہ پذیرائی حاصل نہیں جو مقبول سیاسی جماعتوں کا خاصا ہوتی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی اس ریلی میں عوامی مسلم لیگ کا نام تو شامل ہو گا لیکن شیخ رشید اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے لوگوں کی اکثریت کو اس ریلی میں جمع کرنے سے قاصر ہوں گے۔گزشتہ کالم بھی میں نے اسی موضوع پر تحریر کیا تھا۔ یعنی ’’اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی‘‘ کالم کی اشاعت کے بعد پی ٹی آئی کے اکثر دوست مجھ سے ناراض ہو گئے۔ ٹیلی فون کالز، ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے اپنے گلے شکوے اور سخت الفاظ کا استعمال کیا۔ لیکن کیا کروں، مجبوری ہے۔ دوستی میں اپنے پیشہ ورانہ صحافتی اسلوب کو اپنے کالموں میں کسی طرح بھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ جن دوستوں کی دل آزاری ہوئی ، اُن سے معافی چاہتا ہوں لیکن ان دوستوں کو سچ سننے اور سچ پڑھنے کا حوصلہ اپنے اندر ضرور رکھنا چاہیے۔ میں وہی لکھتا ہوں جو حالات کے بارے میں میرا تجزیہ اور رائے ہوتی ہے۔عمران خان اس بار اسلام آباد فتح کرنے چلے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف یہ اُن کی آخری ریلی، جلسہ اور دھرنا ہو گا۔ یعنی وہ اپنی کشتیاں جلا کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے تاکہ نواز شریف کو احتساب کے لیے مجبور کر سکیں۔ یا پھر اُن کا استعفیٰ عمران خان کی آخری منزل ہو گا۔ عمران خان نے اپنے ورکرز کو اس احتجاجی ریلی اور دھرنے کے لیے بہت چارج کر رکھا ہے۔ ورکرز میں بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے جبکہ دیگر رہنمائوں کے حوصلے بھی بہت بلند ہیں۔دوسری جانب کوئی بھی سیاسی جماعت پانامہ ایشو پر اس دھرنے کے لیے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے لیے تیارنہیں۔ علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک نے بھی عمران خا ن کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ عوامی تحریک، پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں پانامہ ایشو پر پی ٹی آئی کے ساتھ ہوتیں تو کہا جا سکتا تھ کہ یہ ریلی اور دھرنا کوئی رنگ لائے گا۔ مگر ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ حکومت پی ٹی آئی کی ریلی یا دھرنے سے خوفزدہ، مضطرب یا پریشان ہو۔عمران خان کو ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے پُرامن احتجاج کا پورا حق حاصل ہے لیکن اگر یہ قانونی حق غیر قانونی صورت اختیار کر جائے تو حکومت کو بھی پورا حق پہنچتا ہے کہ کسی جگہ کسی شہر میں لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیدا ہو رہا ہو، یا پیدا ہونے کا امکان ہو تو وہ آئینی راستہ اختیا رکرتے ہوئے اپنے تمام ذرائع اور وسائل بروئے کار لائے۔
تجزیہ کاروں کی اکثریت عمران خان کے اقدام پر کڑی اور سخت تنقید کر رہی ہے۔ مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی کو عملی جامہ پہنا کر درحقیقت بغاوت جیسے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ عمران خان کو نظر آتا ہے کہ وہ پاناما ایشو کو لے کر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو 2018ء کا الیکشن کسی صورت نہیں جیت سکتے۔ کیونکہ 2018ء تک لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے سمیت سی پیک اور دیگر منصوبوں کی صورت میں مختلف شعبوں میں ترقی کا جو سیلاب آ رہا ہے وہ انہیں 2018ء کے الیکشن میں کامیابی نہیں دلا سکتا۔ اسی لیے وہ فکر مند ہیں اور 2نومبر کو سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔ یقینا 2نومبر فیصلہ کر دے گا کہ یہ دن عمران خان اور شیخ رشید کی سیاسی خودکشی کا دن ہو گا یا پھر نواز شریف اسلام آباد سے رخصت ہو جائیں گے۔پی ٹی آئی والے بہت پُرعزم ہیں کہ 2نومبر کو جب وہ اسلام آباد کو مکمل بند کر دیں گے یہاں کا کاروبار زندگی معطل ہو جائے گا۔ نواز شریف کو ہر حال میں رخصت ہونا پڑیگا لیکن وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے عمران خان کے متعلق جو اشارہ دیا ہے وہ اس کی غمازی کرتاہے کہ اب حکومت بھی چپ نہیں رہے گی۔ 2نومبر کو کچھ ہو کے ہی رہے گا۔ کیا ہوتا ہے؟سب کو اس کا بے تابی سے انتظار ہے۔