وزیر اعظم آب دیدہ! دیر آید درست آید
جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف پاکستان میں صحت عامہ کی سہولتوں اور عوام کی حالت کو بیان کرتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے۔ یہ منظر کروڑوں پاکستانی عوام نے ٹیلی ویژن سکرین پر دیکھا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کے چیف ایگزٹیو کو یقیناً اب حقیقت احوال کا علم ہو گیا ہے ورنہ ان کی آنکھوں میں آنسو نہ آتے۔ پاکستان میں صحت عامہ کی سہولتوں کا ایک منظرنامہ میں بھی وزیراعظم پاکستان اور قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یہ جگ بیتی نہیں بلکہ آپ بیتی ہے جو کسی دیہات یا پسماندہ علاقے کی نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور روالپنڈی کی ہے۔قارئین کرام کو شاید علم ہو کہ میں صرف کالم نگار ہی نہیں بلکہ گزشتہ چالیس سال سے میڈیا سے منسلک ہوں۔ پی ٹی وی اور ایک نجی چینل کا ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز رہنے کی وجہ سے کسی حد تک ایک بااثر شہری بھی تصور کیا جاتا ہوں، حال ہی میں مَیں ایک ایسے تجربے سے گزرا ہوں جو میرے لیے پریشان کن ہے اس کا تذکرہ میں قومی جذبے کے تحت کر رہا ہوں۔
ربّ کریم نے میری بیٹی کو سات سال بعد عید الاضحیٰ سے تین دن قبل اولادِ نرینہ سے نوازا۔ بچہ جب پانچ دن کا ہوا تو اسے یرقان کی وجہ سے ایک نجی ہسپتال کے چائلڈ سپشلسٹ کو دکھایا اس نے کچھ ضروری ٹیسٹ لکھے، ان ٹیسٹ رپورٹس سے پتہ چلا کہ یرقان بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ کسی بھی چلڈرن ہسپتال میں لے جائیں کیونکہ بچے کا خون تبدیل کرنا ہو گا۔ اسی دوران رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہم اسلام آبادکے سب سے بڑے ہسپتال PIMS کے شعبہ اطفال پہنچے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے انتہائی اخلاق سے ہمیں ڈیل کرتے ہوئے کہا کہ واقعی بچے کا خون تبدیل ہونا ضروری ہے لیکن ہم آپکی مدد کرنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ بچوں کی ICU (نرسری) میں مزید کوئی جگہ نہیں۔ واقعی وہاں ایک ایک Baby Incubator میں تین تین بچے تھے۔ اس نے ہمیں کہا کہ آپ تبدیلی خون کیلئے کسی نجی ہسپتال میں نہ جائیے گا بہتر ہے کہ آپ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کے بچوں کے شعبے میں چلے جائیں۔ ہم فوری وہاں پہنچے، اتفاق سے ہولی فیملی ہسپتال کے شعبہ اطفال کے انچارچ ڈاکٹر رائے اصغرصاحب شناسا تھے۔ انہوں نے ایک ڈاکٹر کو فون پر ہدایت کی کہ وہ خصوصی توجہ دیں۔ ہولی فیملی کے ڈاکٹرز اور عملے نے بھرپور تعاون کیا لیکن کیا کیا جائے کہ جہاں ’’آوے کا آوا‘‘ ہی بگڑا ہُوا ہو، وہاں کیا ہو سکتا ہے۔ بچے کو خون دینے کیلئے ڈونر بھی ہمارا اپنا بھتیجا تھا، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ڈیوٹی پر موجود نرسیں اور ڈاکٹرز بچے کی Vein یعنی نس تلاش نہ کر سکے۔ بار بار جسم کو Prick کرنے کی وجہ سے5 دن کا بچہ شدید تکلیف میں تھا۔ اسکی نڈھال حالت کو دیکھتے ہوئے جب میں نے احتجاج کیا تو انہوں نے بتایا کہ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ہماری ٹرینڈ نرس چُھٹی پر ہے اس لیے ہمارے پاس اب دو آپشن ہیںکہ یا تو آپ بچے کو بے نظیر بھٹو ہسپتال لے جائیں اگر وہاں ٹرینڈ نرس موجود ہے تو وہاں سے Cannula لگوا کر یہاں واپس لے آئیں تا کہ ہم بچے کو خون لگا سکیں۔ دوسرے صورت میں صبح 10 بجے تک انتظار کریں، آپریشن تھیٹر میں چھوٹے سے آپریشن کے بعد Cannula لگا دیا جائیگا۔ بچے کی تشویشناک حالت کے پیش نظر ہم نے اسے بے نظیر بھٹو ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایمبولینس نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ ہم بچے کو اپنی گاڑی میں لے جائیں گے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے بے نظیر بھٹو ہسپتال فون کر کے ہمیں رابطہ نمبر دیدیا۔ اس طرح ہم وہاں پہنچے اگر یہاںسے وہاں فون نہ کیا ہوتا تو شاید ہمیں وہاں کوئی لفٹ نہ ملتی۔ خوش قسمتی سے وہاں موجود عملے نے Cannula لگا دیا اور ہم واپس ہولی فیملی آئے اس وقت رات کے تین بج چکے تھے۔ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک بچے کو کینولا لگوانے کے عمل میں چار گھنٹے صرف ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا بچہ خون کی تبدیلی کے بعد کافی بہتر ہو گیا۔ اگلے روز اس کا یرقان کنٹرول میں تھا۔ بچے کو نرسری سے پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ ہسپتال کی نرسری کے باہر داخلی ہال میں نومولود بچوں کی سینکڑوں مائیں اور متعلقہ افراد فرش پر بیٹھے تھے۔ وقفے وقفے سے بیس بیس مائوں کو نرسری کے اندر بلوا کر بچوں کو دودھ پلوایا جاتا تھا۔ ایک سے دس دن کی زچہ مائیں اپنی تکلیف اور حالت بھول کر پریشان حال اپنی اپنی باری کی منتظر تھیں۔ ان کی باڈی لینگویج کی منظر کشی انتہائی دلخراش ہے۔ مدر فیڈنگ کے لیے کوئی باضابطہ و باعزت جگہ مجھے نظر نہیں آئی۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ ایک دن بعد آپ بچے کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ اگلے روز بچے کی حالت بہتر ہونے کی بجائے خراب ہونے لگی بچے کے دل کی ڈھرکن کافی تیز ہو گئی بار ہا لگا کہ اس کا سانس بھی اکھڑ رہا ہے۔بچے کو دوبارہ نرسری لے گئے میں بھی ساتھ ہی گیا۔ ہولی فیملی ہسپتال کی نرسری دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔ اس روز وہاں ایک ایک Baby Incubator میں تین تین اور چار چار نومولود بچے تھے۔ مریض بچوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ تھی ڈیوٹی پر صرف دو نرسیں اور ایک ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے بچے کو ایک Incubator میں ڈالا جس میں پہلے ہی تین بچے تھے ایک بچے کا کینولہ دوسرے بچے کے منہ میں جا رہا تھا۔ مختلف بیماریوں کی تخصیص کئے بغیر بچوں کو جہاں جگہ تھی وہاں رکھ دیا جاتا۔ میں حیران اور پریشان یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ نرسری کے فرش پر آلودہ اشیاء بھی بکھری پڑی تھیں۔ ڈاکٹر نے میرے نواسے کو چیک کرنے کے بعد نرس سے کہا کہ بچے کا بلڈ ٹیسٹ کیلئے نکالیں۔ میرے سامنے انہوں نے بچے کو Incubator سے نکال کر ساتھ رکھی میز پر لٹایا دس منٹ تک کوشش کے باوجود نرس خون کا نمونہ لینے میں ناکام رہی۔ میں نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور صورتحال بتائی وہ موقعہ پر آیا تو پتہ چلا کہ بچوں کا خون نکالنے کیلئے مخصوص بٹر فلائی نرسری میں ختم ہو چکے ہیں اس لیے وہ بڑی سوئی والی بٹر فلائی سے کوششیں کر رہی ہے۔ ہمیں ضروری سہولتیں ہی میسر نہ ہوں گی تو ہم علاج کیسے کریں گے۔ ہماری بھی کوئی نہیں سُنتا۔ دو سو سے تین سو نومولود بچوں کی ایمرجنسی کیلئے سٹاف بہت کم ہے۔ صفائی عملہ بھی اپنی مرضی کرتا ہے۔ ضروری ادویات اور ایمرجنسی کا سامان پورا نہیں ملتا۔ اس لیے مریض کے لواحقین کو سامان لانے کیلئے کہا جاتا ہے۔آپ بھی باہر میڈیکل سٹور سے بٹر فلائی منگوا دیں جو ہم اگلے ہی لمحے لے آئے۔ اس سے بھی خون کا نمونہ لینے میں نرس کامیاب نہ ہو رہی تھی اسی اثناء مَیں نے جب بچے کے پائوں کی جانب دیکھا تو دو مکوڑے نرسری کی ٹیبل پر بچے کے پائوں کے ساتھ لگے خون سے چمٹے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ بچے کو یہاں رکھنا مزید بیماریوں میں مبتلا کرنے کے مصداق ہے میں ڈیوٹی ڈاکٹر کے پاس گیا اس سے درخواست کی براہِ مہربانی مجھے بتائیے کہ میں بچے کوکہاں لے جائوں اس نے کہا کہ رائو صاحب، بے نظیر بھٹو ہسپتال کی نرسری کا حال ہم سے مختلف نہیں۔ PIMS قدرے بہتر ہے لیکن وہاں بھی آپکو سہولتیں نہیں ملیں گی، چھوٹے پرائیوٹ کلینکس میں تو بچوں کی نرسری نہ ہونے کے برابر ہے۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال نے حال ہی میں بچوں کی نرسری شروع کی ہے وہ سب سے بہتر ہے لیکن وہ بہت مہنگا ہے اگر آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو وہاں لے جائیں۔بچے کی زندگی بچانے کی خاطر ہم فوراً شفا پہنچے۔ بچوں کی ایمرجنسی میں تو یوں لگا کہ شاید بچے میں دم ہی نہ ہو۔ انہوں نے فوراً بچے کو Special Incubator میں ڈالا اور کہا کہ دعا کریں اللہ اسے زندگی عطا کرے، بچے کی حالت تشویشناک ہے۔ شُکر الحمدللہ چند منٹ بعد بچے نے حرکت شروع کی۔ انہوںنے ضروری چیک اپ کے بعد بچے کو فوری طور پر بچوں کی نرسری کے Isolated Room میں منتقل کیا اور کہا کہ بچہ ہولی فیملی ہسپتال سے کئی قسم کے انفیکشنس لے آیا ہے اس لیے اسے الگ رکھنا لازم ہے۔ اگلے دن مختلف رپورٹس آنے پر پتہ چلا کہ بچے کے خون میں بھی انفیکشن ہے۔ دس روز تک بچے کا انتہائی نگہداشت میں علاج ہُوا تقریباً دو لاکھ روپے کا بل ادا کر کے ہم بچے کو واپس گھر لائے تو ڈاکٹر نے کہا کہ گھر اسے مزید 15 دن تک صبح و شام انجکشنز لگیں گے۔ صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان پاکستان میں گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ زچہ و بچہ کی شرح اموات میں اضافے اورحکومتی سطح پر قائم ہسپتالوں میں سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث جہاں پاکستان گزشتہ برس دنیا بھر میں 147ویں نمبر پر تھا اب یہ بڑھ کر 149ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ صحت کی سہولتوں کے اعتبار سے وطن عزیز اپنے پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔میں نے یہ داستان حلفاً بیان کی ہے۔ میرے پاس سارے شواہد موجود ہیں۔ اس بارے میں انکوائری سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ حکومت وقت سے درخواست ہے کہ یہ سب کچھ ان کا کیا کرایا نہیں اسکے پیچھے کئی دہائیوں کی تاریخ ہے۔ میٹرو اور موٹر وے کی بھی ہمیں ضرورت ہے لیکن جب تک صحت عامہ کی جانب توجہ نہ دی جائے نئی نسل صحت مند نہ ہو گی اور نہ ہی پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو گا ہمیں اپنی ترجیحات درست کرنا ہوں گی۔