دونوں فریق راضی جو مرضی کرے قاضی
تحریک انصاف والے لگ بھگ ایک سال سے پانامہ لیکس کے نام پر وزیراعظم پاکستان کا سیاسی پاجامہ اچھال رہے تھے۔ قانونی حلقوں کا کہنا تھا کہ جلسے جلوسوں، عوامی ہجوم میں حکومتی پگڑی تو اچھالی جا سکتی ہے لیکن قانونی طور پر وزیراعظم کا بال تک بیکا نہیں ہو سکتا۔ پھر یوں ہوا کہ بڑے بڑے جلسوں کی بے اثری پر تحریکی رہنمائوں کو عدالت کا خیال آ گیا۔ نتیجہ یہ کہ میاں نواز شریف، اسحاق ڈار، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ اور ایک قانون دان کی طرف سے میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ حاصل کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دی گئیں۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے نواز شریف اور دیگر فریقین کو حکم دیا ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اپنے تحریری جوابات عدالت کے سامنے پیش کریں۔ عدالتی کارروائی کے دوران شیخ رشید نے حسبِ معمول ایک بڑھک لگائی اور عدالت سے مخاطب ہو کر کہا کہ اصل معاملہ آئین کے آرٹیکل 63-62کا ہے کیونکہ انہی آرٹیکلز کے تحت عدالت عظمیٰ نو ارکانِ پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے چکی ہے۔ اپنی جائیدادوں کے بارے میں نواز شریف وغیرہ نے بھی جھوٹ بولا ہے لہٰذا موجودہ حکمرانوں کو نااہل قرار دیا جائے۔ شیخ رشید نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مخالف فریقین کو حاضری کے نوٹس نہیں بلکہ شو کاز نوٹس جاری کئے جائیں لیکن عدالتِ عظمیٰ نے شیخ جی کی یہ شیخی بھری استدعا قبول نہیں کی اور قرار دیا کہ فریقین کے تحریری جوابات آنے کے بعد اور انہیں سن کا دائرہ اختیار کا فیصلہ کیا جائے گا۔ عمران خان عدالت سے باہر نکلے تو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید سے دو قدم آگے نکل گئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پرامن احتجاج نہیں روک سکتی اور اگر حکومت نے ایسی کوشش کی تو ہم شدید ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ خواجہ آصف شوکت خانم ہسپتال پر حملہ کر رہا ہے حالانکہ جنگ کے دنوں میں بھی ہسپتالوں پر حملے نہیں کئے جاتے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پانامہ لیکس الزام نہیں بلکہ ایک ثبوت کا نام ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ایک کرپٹ آدمی ہے۔ عوام پر خرچ ہونے والا پیسہ عوام پر خرچ نہیں ہو رہا بلکہ ملک سے باہر بھیجا جا رہا ہے۔ ہم اس پیسے کا حساب لے کر رہیں گے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم نواز شریف سابق صدر زرداری اور کرپٹ وزراء کا احتساب کیسے کر سکتے ہیں اور وہ زرداری کی کالی دولت کیسے واپس لا سکتے ہیں جبکہ خود ان کا اپنا پیسہ ملک سے باہر پھیلا ہوا ہے۔دوسری طرف جب صحافیوں نے نواز شریف سے رابطہ کیا اور مذکورہ بالا کارروائی پر ان کے تاثرات جاننا چاہے۔ تو یہاں نواز شریف نے کہا کہ میں پانامہ پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کارروائی کے آغاز کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں نے اپوزیشن کے مطالبے پر اس سے قبل بھی سپریم کورٹ کے معزز ریٹائرڈ جج صاحبان پر مشتمل کمشن بنانے کا اعلان اسی جذبے کے ساتھ کیا تھا کہ شفاف تحقیقات کے ذریعے اصل حقائق قوم کے سامنے آ جائیں۔ اس کے جواب میں واحد مطالبہ یہ سامنے آیا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں حاضر سروس جج صاحبان پر مشتمل کمشن بنایا جائے۔ ہم نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا لیکن اس کے بعد ٹی او آرز کو متنازعہ بنا کر سپریم کورٹ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ پھر میں نے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تجویز دی اور پارلیمنٹ میں اپنی واضح برتری کے باوجود حزب مخالف کو کمیٹی میں برابر کی نمائندگی دی گئی لیکن اس کے باوجود اتفاق رائے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اس طرح شفاف اور بے لاگ تحقیقات کا آغاز نہیں ہو سکا۔ اب پانامہ پیپرز کا معاملہ تین جگہ پر زیر سماعت ہے۔ الیکشن کمشن، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔ میں قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ عوام کی عدالت تو بار بار ہمارے حق میں فیصلے دے چکی ہے۔ اب بہتر یہی ہو گا کہ الزام تراشی کے بجائے عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ایک شہری اسد کھرل نے عدالت میں انکشاف کیا کہ نواز شریف خاندان کے 43افراد مالی بدعنوانی میں ملوث نہیں۔ اس حوالے سے وہ بیالیس صفحات پر مشتمل رپورٹ نیب میں جمع کروائی تھی لیکن نو بار یاد دہانی کے باوجود میری وہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی لہذا میں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسد کھرل کی درخواست منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور چیئرمین نیب کو بھی حاضری کے نوٹس جاری کر دئیے۔ سپریم کورٹ کی کارروائی کی روشنی میں پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ اب عمران خان کے پاس اسلام آباد بند کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ حکومت اور نواز شریف عدالتی کٹہرے میں آ چکے ہیں لیکن عمران خان اور شیخ رشید اسلام آباد بند کرنے پر بضد ہیں حالانکہ انہی دونوں کی تحریک پر سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو جواب کے لئے طلب کر لیا ہے۔ اس لئے یہ معاملہ اب سپریم کورٹ پر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ …؎
دونوں فریق راضی، جو مرضی کرے قاضی
دیکھنا ہے، کھائے گا کون قلابازی