.سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو پلی بارگین سے روک دیا
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے نیب آرڈیننس 1999ء کے سیکشن 25a کے تحت ملزموں کو پلی بارگیننگ کے ذریعے کلین چٹ دینے اور دوبارہ اپنے عہدوں پر جاکر کام کرنے کی اجازت دینے سے متعلق چیئرمین نیب کو اختیارات استعمال کرنے سے روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کردیا ہے۔ عدالت نے سرکاری ملازمین کی جانب سے قومی خزانے کو لوٹنے اور پلی بار گین کرکے دوبارہ عہدوں پر کام کرنے والے افراد کی گزشتہ 10برس کی فہرست نیب سے طلب کرتے ہوئے سماعت 7نو مبر تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ان اختیارات کا ستعمال کررہا ہے جو کہ عدالتیں بھی کرنے کی مجاز نہیں ہیں قومی مفاد کو مد نظر رکھا ہی نہیں جاتا بہت سے ایشوز ایسے ہیں جو سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن پر شرم آتی ہے دوسرے ممالک ہنستے ہیں کہ یہ قوانین ہیں جن پر ملک چلتا ہے، نیب قوانین 10کروڑ کی کرپشن پر کہتے ہیں 2کروڑ جمع کرائو واپس نوکری پر بحال ہوکر کمائو کھائو اور باقی قسطوں میں دو، قسطوں کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ نیب میں جاکرکافی کا ایک کپ پیو، مک مکا کرو، سارے معاملات طے اور واپس اپنی نوکری پربحال ہوجائو، بدعنوانی میں ملوث عوامی نمائندے عدالتوں کی جانب سے عوامی عہدہ سے نااہلیت سے بچنے کیلئے نیب حکام کے پاس جا کر مک مکا کر لیتے ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ چیئرمین نیب کی جانب سے مذکورہ اختیارات کا استعمال کرپشن در کرپشن کا عمل ہے ، نیب میں ایک شخص پیش ہوتا ہے کہتا ہے غلطی ہوئی کچھ رقم دی اور دودھ کا دھلا ہو گیا۔ رضاکارانہ واپسی کرنے والوں میں ارکان پارلیمنٹ، اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیس اینٹی کرپشن یا ایف آئی اے کے پاس جائے تو رقم مکمل واپس اور ملزم کو سزا بھی ہوگی جبکہ پلی بار گیننگ کے نام پر قوانین کا جنازہ ہی نکالا جارہا ہے ،یہ قانون ون ٹائم کے لیئے تھا مگر ترامیم کرکے اسے مستقل کرلیا گیا ایک غلطی چھوٹی سی ترمیم سے حل ہوسکتی ہے جو نہیں کی جارہی جیسے فوائد این آر او سے حاصل کیئے گئے ایسے ہی فوائد مبینہ ملی بھگت سے حاصل کیئے جارہے ہیں ، وقت اور مدوجز کسی کا انتظار نہیں کرتے کیوں وقت ضائع کیا جارہا ہے؟کرپشن میں ملوث افراد کو نیب کی جانب سے خطوط لکھے جاتے کہ کچھ رقم دو کام کرتے رہو عہدہ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر ڈار کو جسٹس امیر ہانی مسلم نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جانب سے بھجوائی گئی رپورٹ کے مطابق بدعنوانی میں ملوث 50 فیصد سرکاری اہلکار رقوم کی رضاکارانہ واپسی کے بعد دوبارہ اپنی ملازمتوں پر بحال ہوکر کام کررہے ہیں اورآ پ کہتے ہیں کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے ؟اس کا کیا جواز ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی میں فرق ہے ، رضاکارانہ واپسی یہ ہو رہی ہے کہ ملزم نے دو کروڑ روپئے لوٹے اور پھنس جانے پر رضاکارانہ طور پر 10لاکھ روپئے واپس کردیئے اور باقی قسطوں میں دیتا رہے، یعنی دوبارہ جائو کمائی کرو اور ساتھ ساتھ قسطوں میں ادائیگی کرتے رہو، جسٹس امیرہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ تو بدعنوانی کومزید تقویت دینے کے مترادف ہے ، رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے ملزم سرکاری اہلکارااپنے عہدوں پر دوبارہ بحال ہو جاتے ہیں ، نیب آرڈیننس کا سیکشن 25 اے بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے بنایا گیا تھا نہ کہ اسے مزید بڑھانے کیلئے؟آپ نے تو ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کے قواعد ہی باہر پھینک دیئے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ کرپشن کی رضا کارانہ رقم واپسی کی شق بنانے والوں کو شرم نہیں آئی تھی؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نیب خطوط لکھتا بلکہ بازار میں آواز یںلگاتا ہے،کرپشن کرو اور رضا کارانہ رقم واپس کردو ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب حکام رضاکارانہ واپسی کی رقم میں سے 25فیصد حصہ خود لیتے ہیں ،جس پر نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ،پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کرانے والے نیب ملازمین رضاکارانہ واپسی کی رقم میں سے 25فیصد حصہ نہیں لیتے ہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایف آئی اے میں بدعنوانی کے مقدمات میں پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کا کوئی تصور نہیں ہے ،لیکن بدعنوانی کے خاتمہ کے حوالہ سے ہی کام کرنے والے ادارہ نیب میں رضاکارانہ طور پر رقم واپس دیکر جان چھڑانے کا تصور کیوںہے ، ایک ہی جیسا کام کرنے والے دو اداروں میں یہ امتیاز ی رویہ کیوں ہے ؟جن سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی کے حوالہ سے نیب تفتیش کررہاہے ،وہ نہ صرف نوکریاں کررہے ہیں بلکہ انہیں ترقیاں بھی دی جارہی ہیں ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس قانون میں مناسب ترامیم کرنے کو کہا تھا لیکن اس کی بجائے غیر مناسب ترامیم کردی گئی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ بدعنوانی کرنے والوں میںقومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی شامل ہیں جوکہ عدالتوں سے بچنے کیلئے نیب حکام کے ساتھ مک مکا کرلیتے ہیں کیونکہ اگر معاملات عدالتوں تک چلے جائیں تو انہیں بدعنوانی ثابت ہونے کی صورت میں عوامی عہدہ سے فارغ ہونا پڑ سکتا ہے ، ان اختیارات سے بدعنوانی میں اضافہ اور ادارے کا بیڑا غرق ہوگیا ہے ۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ تقرریوں کے حوالے سے چیئرمین نیب کا اختیار تو ملک کے چیف ایگزیکٹو سے بھی زیادہ ہے ٗ2002 کے بعد سے نیب میں تقرریاں اورترقیاں کیسے ہوئیں ؟نیب کے وکیل نے کہا کہ تقرریاں اور ترقیاں قواعد کے مطابق ہوئیں ۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب کاقواعد پرعمل درآمد حیران کن ہے ٗ ایک انجینئر کوڈی جی لگایاہواہے ۔