وزیراعلیٰ گلگت بلتستان، حافظ حفیظ الرحمان
میاں شہباز شریف نے بعض دوسرے صوبوں کی مدد کر کے یقینی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ پنجاب ایک زرخیز، توانا، قابل قدر، قابل ستائش، قابل مثال صوبہ ہے جو کبھی بھی برے وقت میں اپنے سے چھوٹے صوبوں کی مدد میں محسوس کرتا ہے اور بڑے بھائی کا کرار ادا کرتا ہے، اسمیں شک نہیں کہ پنجاب کی سیاست، پنجاب کی صحافت، پنجاب کی ثقافت اور پنجاب کا ادب ملک کے طول و غرض میں اپنا موثر کردار ادا کرتا ہے۔ پنجاب میں سیاست کا ہاتھ اتنا مضبوط ہے کہ اسکے ڈنڈے اسلام آباد سے جاکر ملتے ہیں۔ گلگت بلتستان جوہر لحاظ سے ایک چھوٹا اور کمزور صوبہ ہے۔ گلگت بلتستان سے چند سال پہلے تک تقریباً سبھی نا واقف تھے۔ جب گلگت کو صوبے کا درجہ دیا گیا، تو معلوم ہوا لیکن آج بھی کروڑوں پاکستانی گلگت کے حدود اربعہ اور تمدن و ثقافت سے ناواقف ہیں۔ صرف وہ لوگ قدرے کچھ چانتے ہیں جنہوں نے کبھی گلگت کا رخ کیا ہو۔ ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ گلگت بہت دور ہے دوسرے گلگت نے ابھی ترقی اور تعلیم کی زیادہ منازل طے نہیں کیں۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگائے کہ گلگت میں کوئی میڈیکل کالج اور یونیورسٹی تک نہیں ہے۔ 20 اکتوبر کو لاہور پریس کلب کے صدر میاں شہباز نے گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کو مدعو کیا۔ میٹ دی پریس میں جناب حافظ حفیظل الرحمان نے اعدادو شمار کی پوری کتاب کھول کر رکھ دی۔ انکی زیادہ تر گفتگو Calculated تھی۔ انہیں حساب اور شماریات پر کامل عبور تھا۔ ثابت ہو گیا کہ حفاظ کا حافظہ بلا کا ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ نے پنجاب کی محبت، عظمت، امداد اور فراخدلی کی دل کھول کر تعریف کی۔ وہ میاں شہباز شریف کے زبردست مداح نکلے۔ حافظ حفیظ الرحمان نے اسی دن صبح وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے ملاقات بھی کی اور انہیں پنجاب کا بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ اس موقع پر میاں شہباز شریف نے تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں امداد و تعاون کا اعادہ کیا۔ میاں شہباز شریف نے گلگت بلتستان کو سی ٹی سکین مشین بھی جلد دینے کا وعدہ کیا۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب گلگت بلتستان کے عوام کو یہ سہولت میسر آئیگی اور وہ اسلام آباد یا دیگر شہروں کا رخ کرنے کے بجائے اپنے ہی صوبے میں سی ٹی سکین مشین سے استفادہ کر سکیں گے۔ حافظ حفیظ الرحمان نے میٹ دی پریس میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا آج گلگت بلتستان وہ پہلے والا پسماندہ اور دور افتادہ نہیں رہا۔ پہلے لوگ ایک ماہ کے سفر کے بعد گلگت سے اسلام آباد پہچنے تھے۔ اب اسلام آباد سے 12 گھنٹے میں گلگت پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی اور ترقی کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کرہ ہم نے بعض پراجیکٹس مکمل بھی کئے ہیں اور وفاقی حکومت کو کو پیسے بچا کر بھی دئیے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ برجی ٹنل سے 7500 میگاواٹ سے 14000 میگا واٹ تک بجلی پیدا ہوگی اور اسکی ابتدائی کاسٹ 4500 بلین ڈالر ہے۔ تقریباً ساڑھے چار سے پانچ سال کے عرصے میں تعمیر مکمل ہوگی۔ اگر یہ پراجیکٹ بن جائے تو بجلی ڈھائی روپے یونٹ ہو جائیگی۔ وزیراعلیٰ گلگت نے کہا کہ سردیوں میں دریا سکڑے جاتے ہیں اور گرمیوں میں پھیل جاتے ہیں۔ ہم دریائوں کا مزاج بھی دیکھ کر چل رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا پنجاب منرل کے ساتھ بھی معاہدہ طے پا رہا ہے۔ ہم گلگت کے پانی، بجلی، دریائوں اور پہاڑوں پر کام کر رہے ہیں۔ حافظ حفیظ الرحمان نے بتایا کہ چودہ بڑے پہاڑوں میں سے 9 گلگت میں ہیں۔ نیپال میں صرف مائونٹ ایورسٹ ہے لیکن نیپال نے اپنی پوری معیشت مائونٹ ایورسٹ پر کھڑی کر رکھی ہے۔ ماضی میں ان پہاڑوں اور دریائوں سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ ہم منرل پلانٹ لگانے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود اپنے ذرائع سے بھاشا ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔ اور ڈونرز کے مقابلے میں سول سٹرکچر ہم خود بنائیں گے۔ ہم چائنہ، تاجکستان اور افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط کو اہمیت دے رہے ہیں۔ پہلے بھی تجارت رہی ہے اب زیادہ منظم اور کارگر طریقے اپنائے جارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ گلگت نے اپنے صوبے کی ترقی اور کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل گرڈ بلتستان پہلی لینڈ ریکوزیشن ہے۔ جی بی کا پہلا بورڈ آف حافظ حفیظ الرحمان نے کہا کہ ٹورازم کو صوبائی سبجیکٹ بنادیا گیا ہے۔ گلگت ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ مارکو پولوکمپنی نے بے شمار جرمنوں اور غیر ملکیوں کو گلگت کی طرف متوجہ کیا۔ ٹورازم سے گلگت پر ترقی کے بے شمار راستے کھل سکتے ہیں اور گلگت کے غریب عوام پر روزگار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ہم یہاں سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔ گلگت میں سیاحوں کو کافی شکایتیں بھی رہیں کہ ایک ہزار والا کمرہ انہیں پانچ اور آٹھ ہزار میں بھی دیا گیا جس سے سیاست کو نقصان پہنچا۔ ہم نے اس رویے کو کچلا ہے اور مانیٹرنگ سسٹم آپریٹ کیا ہے تاکہ سیاحوں سے نا انصافی اور بدسلوکی نہ ہو۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان خوبصورت ملک ہے جہاں سیاحت سے زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے مگر یہاں ٹورازم سے بے اعتنائی برتی گئی ہے۔ اسکا اندازہ یوں لگائیں کہ گلگت کے علاوہ کوئی پاکستانی علاقہ انٹرنیشنل فیسٹیول میں شرکت نہیں کررہا ۔ انہوں نے کہا کہ فارن ٹورسٹ کو لانا وفاقی حکومت کا کام ہے کیونکہ ویزے وہی جاری کرتی ہے جبکہ ملکی سیاحوں کو ہم اپنے علاقے میں لا رہے ہیں۔ اس سے اکانومی بہتر ہوگی۔ ہم گلگت میں ہوٹل بنانے والوں کو سہولیات دینگے۔ اس سے ٹورازم کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹور ازم میں کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ہے۔ اس سے ایک لاکھ لوگوں کو روزگار ملتا ہے اسلئے یہ ہمارے لئے پرکشش ہے۔ ہمیں سالانہ 12 ارب کا بجٹ ملتا تھا۔ اب صرف روڈ بنانے کیلئے 32 بلین روپے مختص کئے ہیں۔ پہلے گلگت کے ہسپتالوں کا بجٹ 7 کروڑ تھا۔ میں نے 27 کروڑ کیا ہے۔ گلگت کے لوگ آئین میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔