گھبراہٹ ہے کیوں طاری؟
2014ء کے دھرنوں کے بعد حکومت سیف اینڈ سائونڈ ہو گئی تھی، عوامی تحریک کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی 2018ء کے الیکشن کا انتظار کرنے لگی مگر اسے حکومت نے خود ایک بہت بڑا ایشو دے دیا۔ شروع میں پیپلزپارٹی بھی پانامہ لیکس کی تحقیقات میں پی ٹی آئی کے مؤقف سے متفق ہوئی مگر وہ عمران خان کے احتجاج کو ٹالتے ٹالتے سات ماہ تک لے گئے بالآخر تحریک انصاف کو سولوفلائیٹ لینا پڑی۔ آج پیپلزپارٹی جمہوریت کو محفوظ رکھنے کے نام پر مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی ہے۔ کوئی عمران خان کے مؤقف سے اختلاف کرے یا نوازشریف کے مؤقف کی تائید کرے مگر کرپشن کیخلاف کڑے اقدامات اور کرپٹ لوگوں کے سخت احتساب کے حوالے سے ہر پاکستانی کی آواز ایک ہی ہے۔ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے خورشید شاہ بھی کہتے ہیں کہ نوازشریف پانامہ لیکس میں بُری طرح پھنس گئے ہیں مگر پھر بھی وہ ان کے ساتھ اس لیے ہیں کہ نوازشریف کا احتساب ہوا تو اسکے ساتھ ہی انکی پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور خود انکی اپنی باری بھی آئیگی۔ ان پر 50ارب کی کرپشن کے کیسز تھے جو گذشتہ دور میں سیٹل ہو گئے۔ جہاں اس دلچسپ واقعہ کا ذکر بھی بے محل نہیں ہوگا کہ گذشتہ دور میں بھارتی معروف اداکارہ پاکستان آئیں۔ ان کا مہمان خانہ ایوان صدر تھا۔ جہاں وہ صبح تک موجود رہیں اور ان کی ایوانِ صدر میں ایک رات قوم کو دس کروڑ میں پڑی، یہ اداکارہ چارٹرڈ جہاز میں آئی اور واپس گئی تھیں۔حکومتی خزانے کو ایسے کئی ٹیکے لگے جن کا ابھی حساب ہونا باقی ہے ۔
عمران خان پانامہ لیکس کی تحقیقات پر زور دے رہے ہیں۔ حکومت ان کی تحریک کو بھی سنجید ہ نہیں لے رہی تھی۔ لاہور میں رائیونڈ جاتی عمرہ تک لانگ مارچ کی اجازت دے دی۔ عمران خان نے جہاں کامیاب جلسہ کر دکھایا۔اسکے بعد انہوں نے اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ پہلے 30اکتوبر کو اسلام آباد آنے کا اعلان کیا پھر وہ 2نومبر تک لے گئے۔ اس پر حکومت کی طرف سے ان کا مذاق اڑایا گیا ، طنز، تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ کہاگیا کہ ان میں اسلام آباد کو بند کرنے کی صلاحیت اور اہلیت ہی نہیں ہے۔ لوگ انکے ساتھ نہیں ہیں۔ ادھرکا رخ کیا تو دیکھ لیں، عوام نے انکی سیاست کو مسترد کر دیا۔ وزیر اطلاعات پرویزرشید نے کہا عمران خان عدالت گئے ہیں توپھرعدلیہ پر اعتباربھی کریں، اسلام آباد بند کرنے کا کوئی جوازنہیں بنتا۔ ہمارا دامن صاف ہے، امید ہے عدالت جلد فیصلہ سنائے گی ہمیں عدلیہ پرمکمل اعتماد ہے۔۔۔ وغیرہ۔ مگر پھر صورتحال اچانک تبدیل ہو گئی۔نوازشریف اقتدار میں آئے تو امید کی جا رہی تھی کہ انہوں نے اپنی سیاست اور ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ اپنی آئینی مدت آسانی سے پوری کر لیں گے۔ انکو جمہوریت کی قدر کرنیوالے آرمی چیفس پہلے جنرل کیانی اور پھر جنرل راحیل شریف کا ساتھ حاصل تھا۔ میں نے نوازشریف کے آتے ہی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ میاں نوازشریف کے پانچ سال پورے کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی بشرطیکہ وہ خود بم کو لات نہ مار دیں اور پھر ایسا ہی ہوا انہوں نے بم کو بار بار لات ماری اور آخری مرتبہ تو بارود کو ماچس بھی دکھانے پر تلے نظر آئے۔ جب عمران خان کے اسلام آباد کو بند کرنے کے غبارے میں ہوا کوئی خاص نہیں تھی۔ میاں نوازشریف اور انکی پارٹی نے ایسے اقدامات کیے کہ عمران خان کی کامیابی واضح ہوتی چلی گئی۔ گویا حالات عمران خان کی موافقت میں ہونے لگے۔
ملکی سلامتی کے اجلاس کے دوران ہونیوالی گفتگو ایک اخبار نویس کو فیڈ کرکے فوج کو دوسرے Endپر کھڑا کر دیا۔ اوپر سے سپریم کورٹ نے نااہلی کیس کھول کر یکم نومبر کی تاریخ دیدی۔ اسکے بعد وزراء کا پُرغرور سرجھک گیا۔ عمران کو جو چیلنج دیتے تھے وہ پسپائی اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پہلے لہجے میں رعونت تھی اب لجاجت ہے، انکساری ہے۔ کہہ رہے ہیں عمران کو سپریم کورٹ کا احترام کرنا چاہیے، اسلام آباد کو بند کرنا درست نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب گھبراہٹ طاری ہے، کل دھمکیاں دینے والے آج بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ اسحاق ڈار سنجیدہ اور مدبر لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں اب انکے لہجے میں خفگی کا تاثر نمایاں ہے۔ وہ عمران خان پر بے طرح سے برس رہے ہیں۔کہتے ہیں مت جلو، مت سڑو، نصیب میں ہوگا تو اقتدار ملے گا، کنٹینر پر چڑھنے والے کو ملکی ترقی ہضم نہیں ہورہی۔ اچھی خبریں کچھ لوگوں پر بجلی بن کر گرتی ہیں اور انہیں ڈائریا ہو جاتا ہے، لوگ خیرات کے پیسے تک کھا جاتے ہیں اور اسکا حساب بھی نہیں دیتے۔ عمران مسلسل سیاسی ناکامی پر بوکھلاہٹ کا شکارہیں۔تاہم ان کی زبان سے ایک سچی بات بھی نکل گئی ۔کہتے ہیں ہم میں بے وقوف لوگ ہیں جو دوسروں کے اشاروں پر ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بہرحال 2نومبر کو کچھ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا حکومت حواس باختہ ہو چکی ہے اور اس دوران وہ کسی کیفیت میں کچھ غلط کرکے اپنا ناقابل تلافی نقصان کرا سکتی ہے۔ اس نے اسلام آباد کو کنٹینروں سے بند کرنے کا فیصلہ کرکے عمران خان کام آسان بنا دیا ہے۔ 2نومبر کو اسلام آباد بند ہوتا نظر آتا ہے۔ جج بھی عدالتوں میں نہیں جا سکیں گے ۔کیا جج سڑکوں پر اڑتی دھول اور مٹی سے لتھڑے کنٹینروں میں سے گزر کر عدالت پہنچیں گے یا ان کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عدالت پہنچایا جائیگا۔میں کوئی انفارمیشن نہیں دے رہا مگر اگر طاہر القادری صاحب اپنی سیاسی بقا چاہتے ہیں تو وہ اب کی بار عمران خان کے اس دھرنے میں اپنا کردار ادا کرکے سیاسی طور پر بہت کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہونگے کیونکہ ایک مدبر سیاست دان وہی ہوتا ہے جو زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے وقت کی نزاکت کے مطابق فیصلے کرے۔جیالوں کیلئے ایک خبر اور شنید ہے کہ قمر الزمان کائرہ کو جو کہ پیپلزپارٹی کے گھونسلے سے اڑان بھرنے کی تیاری کر چکے تھے، کو پیپلزپارٹی میں پنجاب کا صدر بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر سیانے کہتے ہیں کہ ’’چڑیا کا بچہ جب ایک دفعہ گھونسلے سے گِر جاتا ہے تو پھر اس کا ٹِکنا مشکل ہوتا ہے‘‘دیکھتے ہیں اگلے چند دنوں میں کتنے اور کونسے گھونسلے خالی ہونے والے ہیں۔