نیالانگ مارچ
1976 میں آزاد چین کے معمار اورچینی کمیونسٹ پارٹی کے راہنما چیئرمین ماؤزے تنگ دنیا سے رخصت ہوئے تو چین ایک دوراہے پر کھڑا تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے سامنے یہ سوال تھا کہ ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھیوں کی فکر اور طریقہ کار اختیارکیا جائے یا اس راستے کو چھوڑ کر کوئی اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ 1976 میں ماؤزے تنگ کے پرانے ساتھی دینگ سپاؤ پنگ جو ایک عرصہ تک ماؤ اور ان کے معتمد ساتھیوں کے زیر عتاب رہے تھے۔ منظر عام پر آئے اور انہوں نے چین کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا۔ دینگ سیاؤ پنگ نے کمیونسٹ پارٹی کے تحت چلنے والے پرانے معاشی نظام جس میں معیشت پر سارا کنٹرول حکومت کا تھا اسے بتدریج ختم کیا۔ ایک Regimented Economy یا حکومت یا ریاست کے زیر کنٹرول معیشت کو مارکیٹ اکانومی میں ڈھالنا شروع کیا گیا۔ نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی کی گئی اورحکومت کے زیر کنٹرول اداروں کے ساتھ ساتھ نجی کاروبار کو فروغ دیا گیا۔ اس نئی معاشی فکر اور لائحہ عمل کے نتیجہ میں چین نے معاشی ترقی کی طرف بڑی بڑی جستیں لگانا شروع کیں اور دیکھتے ہی دیکھتے چین دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اقتصادی قوت کے طور پر ابھرنا شروع ہوا۔ چین نے 1979 میں جو معاشی سفر شروع کیا وہ آج اپنے عروج پر ہے ۔ چین امریکہ کے بعد اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔
1979ء میں جب دینگ سیاؤ پنگ نے چین کو معاشی ترقی کی نئی سوچ دی اور معاشی اصلاحات شروع کی گئیں تو مغربی دنیا نے اس عمل کو ماؤ کی مخالف تحریک Demaioisation قرار دیا اور مغربی پریس یہ پروپیگنڈہ کرنے لگا کہ ماؤ کے خلاف چین میں ایک تحریک شروع ہوگئی ہے ۔ ماؤ کے دور کا سیاسی اورمعاشی فلسفہ جلد ترک کر دیا جائے گا یہ مغربی پریس اور مغربی سیاسی راہنما جو ماؤزے تنگ کو The Helmsman قرار دیتے تھے۔ اب وہ اس کے خلاف مہم چلا رے تھے ۔ ماؤزے تنگ نے چین کو استعماری طاقتوں سے آزادی دلا کر آزاد چین کی بنیاد رکھی۔ تیس(30) کی دہائی میں جب چین غیرملکی جارحیت اورخانہ جنگی کا شکار تھا۔ ماؤزے تنگ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی۔ 1934 میں ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کی کمیونسٹ فوج جسے ریڈ آرمی کہا جاتا ہے۔ نیشلسٹ فوجوں یا کومنتانگ کے خلاف تاریخی عسکری جدوجہد شروع کی جسے تاریخ میں لانگ مارچ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی لانگ مارچ کے نتیجے میں ماؤزے تنگ کمیونسٹ چین کی غیر متنازعہ لیڈر بنے لانگ مارچ کے دوران سرخ فوج چیانگ کائی شیک کی قیادت میں نیشنلسٹ فوج کا گھیرا بار بار توڑ کر اس پر حملہ آور ہوتی رہی اس دوران سرخ فوج کو کئی ہزیمتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ لیکن ماؤزے تنگ نے گوریلا جنگ کے حربے استعمال کرکے اپنی 86 ہزار فوج کے ساتھ لانگ مارچ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے اپنی فوج اور کامریڈوں کے ساتھ 12 ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل فاصلہ طے کیا اس لانگ مارچ کے نتیجے میں نیشلسٹ فوجوں کو شکت ہوئی اور موجودہ آر او چین وجود میں آیا۔
مغربی دنیا کا خیال تھا کہ موجودہ چین ماؤزے تنگ اور لانگ مارچ کو فراموش کر چکا ہے لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی کے موجودہ صدر لی شی پنگ کی قیادت میں حال ہی میں بیجنگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے تین ہزار لیڈروں کااجلاس ہوا جس سے لی شی پنگ نے خطاب کیا اور کہا کہ چین ماؤزے تنگ کی قیادت میں ہونے والے لانگ مارچ سے اب بھی حوصلہ اور انسپائریشن حاصل کرے گا چین موجودہ دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے لانگ مارچ کے دوران کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے بے پناہ حوصلے عزم اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے جذبہ سے سبق حاصل کرکے موجودہ چیلنجوں اور مشکلات پر قابو پائے گا۔اب پھرچین کو گھیرے میں لانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ چین میں ان دنوں لانگ مارچ کی سپرٹ اور جذبہ کو اپنانے کی بات ہو رہی ہے چینی قوم ایک حوصلہ مند قوم ہے لیکن وہ اپنی تاریخ کو اپنی ترقی کے سفر میں پیش نظر رکھتی ہے چینی قوم قدیم عہد کے عسکری امور کے ماہر سن زو SONTZU کی جنگی حکمت عملی پر خیالات اور STRATEGY سے فائدہ اٹھا رہی ہے یہ سن زو SUN TZU ہی تھا جس نے کہا تھا کہ بہترین جرنیل وہ ہے جو لڑائی کئے بغیر دشمن کو زیر کرے چینی اپنے مفکروں کے خیالات کو کبھی ترک نہیں کرتے وہ جہاں کنفیوشس کی فکر سے راہنمائی لے رہے ہیں وہاں وہ ماؤزے تنگ کی جنگی اور سیاسی حکمت عملی سے ایستفادہ کر رہے ہیں چینی اپنی قومی ترقی کے موجودہ دور میں ایک مرتبہ پھر ’’لانگ مارچ ‘‘ کے فلسفے سے رجوع کر رہے ہیں۔