داتا گنج بخش ہجویری اور ”الھجویر“
اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے آس پاس سے تحریک انصاف کی عورتوں کو گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پولیس نام نہاد رہنماﺅں کو گرفتار کیوں نہیں کرتی۔ کارکنوں کو لاٹھیاں ماری جا رہی تھیں اور معروف سیاسی لوگ عمران خان کے پاس بیٹھ کے گپیں لگا رہے تھے۔ شاید چائے وغیرہ بھی پیتے ہوں گے مگر عمران خان گرمیوں کی دوپہروں میں آنے والے مہمان ساتھیوں کو پانی کا گلاس تک نہیں پلاتے۔
شیخ رشید تو عوامی آدمی ہیں۔ گارڈن میں میرے سٹوڈنٹ تھے۔ پرویز رشید کو سٹوڈنٹس یونین کے مقابلے میں شکست فاش دی تھی اور صدر یونین بن گئے تھے۔ تب پرویز رشید بھٹو کے دیوانے تھے۔ بھٹو نے نوجوانوں کو بہت مائل کیا تھا پھر گھائل کیا مگر انہیں قائل نہ رکھ سکے۔ پرویز رشید کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ وہ ایک وفادار آدمی ہیں اور بے غرض سیاستدان۔ مجھے عرفان صدیقی اور پرویز رشید میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔ پھر بھٹو روائتی سیاست میں پھنس گئے۔ روایتی سیاستدان انہیں تختہ دار پر چڑھوانے میں کامیاب ہوئے۔ پہلے وہی انہیں تخت اقتدار پر بٹھانے میں آگے آگے تھے۔ بھٹو کے جنازے میں چند لوگ تھے۔ سارے رشتہ دار تھے کوئی جیالا نہ تھا۔ تخت اور تختہ دونوں کے لیے روائتی سیاستدان اپنے انقلابی لیڈر کو سرفراز کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اللہ عمران کی عمر دراز کرے۔
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا
انسانی تاریخ میں بہادر غیرت مند اور اہل انسانوں اور سیاستدانوں نے ان دونوں مقامات کی سیر کی۔ وہ لوگ میرے خیال میں بدنصیب ہوتے ہیں جو ایک مقام کی سیر کرتے ہیں اور ابھی عمران خان نے ایک مقام کی بھی سیر نہیں کی۔
صدر جنرل مشرف سے کسی نے پوچھا تھا کہ اپنے دور حکومت کی سب سے بڑی غلطی کے بارے میں بتائیں تو بے ساختہ اور دل برداشتہ کہا کہ میں نواز شریف کو پھانسی کے تختے تک نہ لے جا سکا۔ یہ ایک ظالمانہ بات ہے۔
یہ بھی دیکھنا پڑا جنرل مشرف کو کہ پھر انہی کے عہد حکومت میں نواز شریف وطن سرخرو ہو کے واپس آئے اور پھر انہوں نے جلاوطنی اور ہم وطنی کو ملا دیا۔ اس میں ان کے بہت مخلص اور مستعد چھوٹے بھائی شہباز شریف کی بھی بڑی کنٹری بیوشن ہے۔
اس کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے زمانے میں ایسے ہی حالات جنرل مشرف کے لئے پیدا کر دیے گئے جو انہوں نے نواز شریف کے لیے پیدا کر دیے تھے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے سینئر جرنیل پرویز مشرف کو بچا لیا۔ کراچی سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی تھی۔ انہیں یہاں اطمینان رہا کہ ”صدر“ زرداری کو احساس تھا۔ جنرل مشرف کے این آر او کے ذریعے زرداری صاحب اور ان کے آدمیوں بلکہ نواز شریف اور ان کے دوستوں کو بھی فائدہ ہوا۔ این آر او جنرل مشرف کی مجبوری بھی تھی ورنہ وہ نواز شریف کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔
شاہ محمود قریشی اتنے قابل اعتماد آدمی نہیں ”صدر“ زرداری اگر وزیر خارجہ دوبارہ بنا دیتے تو وہ کبھی تحریک انصاف میں نہ آتے۔ یہ بات ابھی تک ایک سوال ہے کہ وہ مسلم لیگ ن میں بھی گئے تھے اور نواز شریف پسند کرتے ہیں۔ سیاستدان ہمیشہ اعتبار اور بے اعتباری کے درمیان کسی مقام پر رہتے ہیں۔
چودھری نثار اور نواز شریف بھی ایک دوسرے کو اتنا پسند نہیں کرتے مگر نواز شریف اپنے ہر زمانے میں انہیں ”چنگا تکڑا“ وزیر بناتے ہیں اور چودھری صاحب بن بھی جاتے ہیں۔ شہباز شریف اور چودھری صاحب میں بہت دوستانہ ہے۔ اس میں کوئی سیاست بھی ہے تو وہ ”غیردوستانہ“ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اقبال حمیدالرحمن نے صرف الزام پر استعفیٰ دے دیا کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ الزام چند وکیلوں نے لگایا۔ یہ وہ وکیل ہیں جن کی وکالت نہیں چلتی اور وہ جھوٹے الزامات لگانا وکالت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بہادر وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر نے اور ان کے ساتھی وکلاءنے صدر پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ استعفیٰ منظور نہ کریں۔ یہ کیسا بڑا اور سچا جج ہے کہ وہ صرف الزام کی بنیاد پر استعفیٰ دیتا ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں استعفیٰ دینے کا رواج ہی نہیں۔ استعفیٰ لینا ایک روایت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ استعفیٰ لیا جاتا ہے دیا نہیں جاتا۔ عاصمہ جہانگیر کے اس دلیرانہ بیان پر سعید آسی نے بڑی جرا¿ت اور حکمت کے ساتھ کالم لکھا۔ میں عاصمہ صاحبہ اور آسی صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں....
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
مجھے لاہور پسند ہے کہ اسے داتا کی نگری کہتے ہیں وہ ہجویر سے لاہور تشریف لائے تھے۔ اس کے باوجود کہ انہیں ہجویری بھی کہتے ہیں مگر اکثر لوگوں کو پتہ نہیں۔ وہ اپنے لہوری ہونے کو داتا صاحب کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حیرت ہے کہ جو ایک دفعہ لاہور آ گیا پھر واپس نہیں گیا۔ جیوے جیوے نگری داتا کی۔
محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری نے دو جلدوں میں کتاب ”الھجویر“ کے نام سے مرتب کی ہے۔ یہ بہت بڑی کتاب ہے۔ اسے تحقیقی کتاب اور تخلیقی کتاب بیک وقت کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک انسائیکلوپیڈیا بھی ہے۔ اس بڑی کتاب کی تقریب بھی دربار داتا صاحب میں ہوئی۔ جس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سیکرٹری اوقاف نوازش علی نے شرکت کی ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کو مبارکباد پیش کی گئی۔ بخاری صاحب خود ایک سکالر آدمی ہیں۔ اس کتاب میں سو سے زیادہ مذہبی اور علمی شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔ تصوف سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہئیے۔
اس سے پہلے داتا صاحب کے مزار اقدس کے غسل شریف کی تقریب ہوئی یہ روحانی اور خانقاہی دنیا کا ایک اہم واقعہ ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی یہاں موجود تھے۔ خانقاہ گلاب اور یاسمن سے مہک رہی تھی یہاں صوبے کے سب سے بڑے حکمران کی شرکت بہت اہم ہے۔ میں نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ شہباز شریف چودھری نثار کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل سے ملاقات میں شریک تھے اور مریم نواز کی طرف سے ٹویٹ آیا کہ شہباز شریف لاہور میں ہیں اب پی ٹی آئی کے فیصل واڈا نے جھوٹی انفارمیشن دی کہ مریم نواز شریف اسلام آباد سے لاہور چلی گئی ہیں مریم کا ٹویٹ آیا ہے کہ میں اسلام آباد میں ہوں مجھے یقین ہے کہ ان دنوں وہ لاہور میں ہوتیں تو بھی اسلام آباد چلی جاتیں۔ فیصل واڈا وغیرہ کا کام کوئی قومی فیصلہ کرنا ہے نہ کہ ڈس انفارمیشن دینا۔ ان سے ایک دوست نے کہا کہ آپ کو مس انفارمیشن کیوں پسند ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں مس آتا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ بھی ہے وزیر دفاع خواجہ آصف بیرون ملک چلے گئے وہ کیا کرنے گئے ہیں؟