فوج سے بہتر تعلقات ،حکومت پہلے مشاہد اللہ سے استعفیٰ لے چکی ہے ،خبر کے معاملے کی تحقیقات اب منطقی انجام تک پہنچیں گی
اسلام آباد (عترت جعفری‘ نمائندہ خصوصی+سپیشل رپورٹ) 6 اکتوبر کو انگریزی روزنامہ میں قومی سلامتی کے اجلاس کے بارے میں چھپنے والی خبر سے پیدا شدہ ارتعاش اور شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی نظر آ رہی ہے اوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کو وزارت اطلاعات و نشریات کے منصب سے ہٹائے جانے کے بارے میں پی ایم آفس کا بیان اس کی تصدیق کر رہاہے کہ معاملہ کی تحقیقات اب منطقی نتیجے تک جائے گی۔ پی ایم آفس کے بیان سے اس تاثر کی بھی تردید ہوگئی ہے جو بعض حلقوں کی طرف سے پھیلایا جا رہا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ خبر کا معاملہ پس منظر میں چلا جائے گا اور اس کی شدت کم ہوتی چلی جائے ایشو معدوم ہو جائے گا۔آرمی چیف کی سربراہی میں کور کمانڈرز کے اجلاس کے بیان ‘ بعدازاں اسی ایشو پر آرمی چیف کے وزیراعظم سے ملاقات ‘ اس کے بعد تین وفاقی وزراء کی آرمی چیف سے ملاقات اس بات کے واضح اشارے تھے کہ ’’نیوز لیک‘‘ سنجیدہ معاملہ ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں 3 تحقیقات مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم پی ایم آفس کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اطلاعات و نشریات سے قلمدان واپس لیا جانا ابتدائی اقدام ہے جبکہ باقاعدہ تحقیقات کمیٹی کرے گی۔ جس کے دائرہ کا تعین ہو گا۔ کمیٹی ’’نیوز لیک‘‘ کے ذمہ داران کا تعین کرے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی اصل پردہ نشینوں کے نام سامنے آنا باقی ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک وفاقی وزیر بھی اس سے متاثر ہوں گے۔فوج کے ساتھ سول حکومت کے تعلقات کو کشیدہ ہونے سے بچانے کے لئے حکومت اپنے دو وزراء کو فارغ کر چکی ہے، اس سے قبل وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ نے 2014ء میں ہونے والے اپوزیشن دھرنے کو فوج کے بعض عناصر کی حمایت حاصل ہونے کے دعویٰ پر مبنی بیان دیا تھا جس پر فوج نے رد عمل ظاہر کیا اور مشاہد اللہ خان سے استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔