• news

سپریم کورٹ کی دانشمندی‘ ملک میں پھیلتی انارکی کسی حد تک کنٹرول کر لی

اسلام آباد (صلاح الدین خان/ تجزیہ) سپریم کورٹ نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے دانشمندانہ طریقہ سے ملک بھر میں پھیلتی انارکی کو کافی حد تک کنٹرول کرلیا ہے، پانامہ لیکس کی تحقیقات کے معاملے پر شروع ہونے والا سیاسی انتشار اور بحرانی کیفیت ٹل گئی ،فریق سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے معاملہ جوڈیشل انکوائری کمیشن بنانے پر طے پاگیا ہے تاہم کمشن کی تشکیل کے لیئے سپریم کورٹ جو بھی طریقہ اختیار کرے گی اس کے لیئے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے، عدالت نے فریقین سے ٹرمز آف ریفرنس پر تجاویز جبکہ مدعا علیہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ودیگر سے تحریری جواب بھی تین نومبر کو طلب کرلیا ہے۔ کیس سپریم کورٹ میں آنے کے بعد پانامہ معاملہ لٹک گیا ہے جو سال چھ ماہ سے پہلے حل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، جبکہ جوڈیشل انکوائری کمشن کی تشکیل اس کی انکوائری رپورٹ اور کمشن کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیئے آئین و قانون کی پروویژن کو دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے پاس کمشن تشکیل دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے اگر کمشن تشکیل بھی دے دیا جاتا ہے تو لیگل کور کے لیئے اس کی پارلیمنٹ سے منظوری ہونا ضروری ہے، آئینی ترمیم دو طرح سے ہوسکتی ہے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دوسرے ایوان بالا اور ایون زیریں کے جاری اجلاس میں مسودہ قانون کی منظوری کے بعد ، صدارتی آرڈیننس اس وقت ہی جاری ہوسکتا ہے جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہورہا ہو بعدازاں مخصوص مدت 120 دن، پھرمزید تین ماہ کے لیئے ہی صدارتی آرڈیننس کار آمد ثابت ہوسکتا ہے ، پھر اس کی پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے وگرنہ وہ مقررتاریخ پرازخود ختم ہوجاتا ہے۔ پہلے وزیر اعظم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا جس میں 1956 کے آئین کے تحت کمیشن بنانے کے لیئے کہا گیا تھا جسے چیف جسٹس نے واپس بھجواتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اس ایکٹ کے تحت بنائے جانے والے انکوائری کمیشن کی رپورٹ صرف سفارشات پر مبنی ہوگی جو حکومت کو پیش کی جائے گی اور حکومت کی صوابدید ہوگی کہ وہ اس پر عمل درآمد کرے یا نہ کرے ، عدم عمل درآمد پر کمشن کی یہ ایکسر سائز بے کار ثابت ہوگی لہذا بااختیار کمشن اور اس کی رپورٹ پر حتمی عمل درآدمد کے حوالے سے جواب دیا جائے جس پر حکومت نے کوئی جواب جمع نہیں کروایا تھا۔سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے اپنے آرڈرز میں مقدمہ کے فریقین سے ٹی او آرز پر تجاویز طلب کی ہیںاور کہا ہے کہ موصول ہونے والے ٹی او آرز پر اگر فریقین کا اتفاق رائے نہ ہوسکا تو عدالت خود ٹی او آر تشکیل دے گی۔ یہ سیاسی معاملہ جو سیاسی طور پر پارلیمنٹ میں حل ہوسکتا تھااب سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر آگیاہے۔ لارجر بنچ کیس کی سماعت دو طرح کرسکتا ہے ایک انکوائری کمشن کی رپورٹ کی روشنی میں دوسرے آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت۔ مذکورہ بالا تناظر میں دیکھا جائے تو کمشن کی روزانہ سماعت کے باوجود بھی پانامہ کیس کا فیصلہ ایک سال چھ ماہ سے پہلے ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن