• news

پانامہ لیکس، جوڈیشل کمشن بنے گا: حکومت، اپوزیشن کل تک ٹی او آر دیں، اتفاق نہ ہوا تو خود بنائیں گے: سپریم کورٹ

اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت+ بی بی سی) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس تحقیقات کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فریقین کے اتفاق رائے کے بعد جوڈیشل کمشن بنانے کا فیصلہ کرلیا، عدالت نے فریقین سے ٹی او آرز بنانے کے بارے میں تجاویز اور تمام مدعاعلیہ سے جمعرات 3 نومبر تک تحریری جواب طلب کرلئے ہیں۔ جوڈیشل کمشن سپریم کورٹ کے حاٖضر سروس جسٹس کی نگرانی میں بنایا جائیگا جسے سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے جو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ میں پیش کریگا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر مقدمہ کے فریقین کی جانب سے ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو عدالت ٹی آو آرز خود طے کریگی جبکہ کمشن کے اختیارات بارے بھی فاضل عدالت خودفیصلہ کرے گی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک سنجیدہ اور ہیجانی معاملہ ہے جس سے ملک کا ہر شہری متاثر ہو رہا ہے ، عدالت سیاست میں مداخلت نہیں کررہی اور نہ مقدمہ میں کوئی حکم جاری کررہی ہے۔ فریقین صبروتحمل اور سمجھداری کا مظاہرہ کریں اور ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالیں، ملک کا ہر شخص بے چینی کا شکار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ سنجیدہ ہے جسے ہم وقت ضائع کیئے بغیر جلد از جلد حل کرنا چاہتے ہیں، پانامہ لیکس کے ایشوز پر فریقین آٹھ ماہ سے تیاری کررہے اور پش آپس لگائے جا رہے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں جو کیس کی تحقیقات کرے، شواہد اکٹھے کرے اور سزا دے ، ہم شرلاک ہومز نہیں بن سکتے، عدالت معاملے پر کمشن بناسکتی ہے، پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے پانامہ لیکس پر شواہد پیش نہ کرنے پر انکا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی پرویز مشرف پر الزام لگائے کہ انہوں نے کرپشن کی ہے تو عدالت محض الزام پر کارروائی نہیں کرسکتی اس کیلئے شواہد اور ٹھوس ثبوت ہونے چاہئیں، اگر عدالتی فیصلہ کو سیاسی جماعتیں نہیں مانتیں تو عدالت کیا کریگی؟ کمشن کی فائنڈنگ کو ضائع نہیں ہونا چاہیے، وزیراعظم تحریری بیان دیں کہ اگر فیصلہ انکے خلاف آیا تو وہ ایک دن بھی اپنی سیٹ پر نہیں رہیں گے، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ منی لانڈرنگ کا قانون کسی ایک پر نہیں تمام پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجربنچ نے تحریک انصاف، جماعت اسلامی ،عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم شاہ محمود قریشی، نعیم الحق، حامد خان اور پی ٹی آئی کے وکلاء موجود رہے جبکہ وفاقی وزرا خواجہ محمد آصف،خواجہ سعد رفیق،طلال چوہدری اور دیگر رہنما بھی عدالت میں حاضر تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تمام فریقین نے پاناما لیکس کے حوالے سے جوابات جمع کرائے ہیں جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نیب کے سوا کسی بھی فریق نے جواب جمع نہیں کرایا ، جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر ڈار سے کہاکہ عدالت کوبتایاجائے کہ آپ نے معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کیں، جبکہ اس حوالے سے متعدد درخواستیں نیب میں آئی ہوئی ہیں ، نیب آرڈیننس 1999، 6/5 کے تحت یہ بندے کا ذاتی فعل اور جرم ہے نیب کس لئے بنایا گیا ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاپانامہ ایشو کے حوالے سے کوئی تحقیقات یا کارروائی کی گئی، کوئی کمیٹی بنائی گئی؟ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا نیب کے پاس شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار نہیں جب عوام ان کے پاس شواہد لے کر آئیں گے تب نیب کارروائی کرے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی نیب کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے روز مرہ کی کارروائی سے انحراف کیوں کیا اس سے تو ہمیں بڑا واضح پیغام مل گیا ہے کہ کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کرنا چاہتا، اب اس معاملے پر کمشن بنانے کی ضرورت نہیں، بلکہ سپریم کورٹ اس کیس کو خود دیکھے گی کیا نیب پہلے ہی طے کرچکا ہے کہ پانامہ ایشوز پر کچھ نہیں کرنا وہ فہرست(شکایات کی) فراہم کریںجس میں پی ایم اور انکی فیملی پر الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس ایشو سے عوام متاثر ہورہے ہیں، سماعت کے دوران وزیراعظم کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے پیش ہوکر بتایا کہ انھیں پانچ روز قبل ہی وکیل مقرر کیا گیا ہے اس لئے مجھے جواب داخل کرانے کے لئے مزید مہلت دی جائے، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ اس وقت پوری قوم کی نظریں پاناما لیکس پر لگی ہیں اس لئے جواب جلدی جمع ہونا چاہیے تھا،بادی النظر میں یہ عوامی معاملہ ہے جس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو سکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیاں چاہیے کسی کی بھی ہوں دیکھنا یہ ہے کہ ان میں لگایا جانے والا پیسہ کن ذرائع سے آیا ، ایڈووکیٹ طارق اسد نے کہا کہ ان کی درخواست زیر التواء ہے کیس کے ساتھ فکس ہونا چاہیے تھی شاید اسے نمبر نہیں لگا اور وہ منسلک نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا صرف آپکی درخواست ہی نہیں سینکڑوں درخواستیں روزانہ آتی ہیں سپریم کورٹ میں ہزاروں درخواستیں التواء کا شکار ہیں ججز ماہانہ تقریبا دو ہزار مقدمات سنتے ہیں ہم کیس کی سماعت کررہے ہیں انکوائری نہیں کررہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انسانی حقوق اور عوامی مفاد کا کیس ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل حامد خان سے کہا کہ کیا ان کے پاس الزامات کے حوالے سے دستاویزات بھی موجود ہیں ؟ کس نے ان سے انکار کیا ہے ؟ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ سب سے پہلے لندن میں 1928میں مذکورہ معاملے سے متعلق پراپرٹی خریدی گئی ایسی 4پراپرٹیاں ہیں ان کی رجسٹریشن 1993میں ہوئی مریم نواز کی خریدی گئی پراپرٹی کے سرمائے بارے کہاگیا کہ وہ جدہ ، سعودیہ کی پراپرٹی فروخت کرکے حاصل کیا گیا ، انکوائری کی جائے کہ سرمایہ کہاں سے آیا۔16مارچ 2016کو سپین بینک نے نواز شریف کو اس حوالے سے سمن بھی جاری کیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا 2005 کی پراپرٹی اور لندن کی پراپرٹی خریدنے کا سورس الگ الگ ایشو ہے کیا آپ کے پاس خریدی گئی پراپرٹی کے معاہدہ کی کاپیاں موجود ہیں ، حامد خان نے کہا کہ وہ موجود نہیں نہ ان تک رسائی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور شواہد کے کسی کو سزاء نہیں دے سکتی، حامد خان نے کہا عدالت سٹیل ملز اور حج کرپشن کیس کی تحقیقات کرواچکی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت اس معاملے پرکمشن قائم کرے گی جس کاسربراہ سپریم کورٹ کا حاضر سروس جج ہوگا لیکن ہم دوسرے فریق سے بھی پوچھیں گے اوران سے تحریری جواب مانگیں گے ان تمام چیزوں کوریکارڈ پرآنا چاہیے، حامد خان کا مزیدکہناتھاکہ پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تحقیقات شروع کرنی چاہئے تھی لیکن اس معاملے میں نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر تاخیر کے ساتھ اپنے فرائض ادا نہ کرنے کے بھی ذمہ دار ہیں، حامد خان نے عدالت سے مطالبہ کیاکہ عدالت پانامہ لیکس کے ایشو کی تحقیقات کرائی جائے تو بینچ نے پہلے کہا کہ سپریم کورٹ نہ تو ٹرائل کورٹ ہے اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ ہے جوتحقیقات کرائے گی ،تاہم بعد ازاں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اگر اس معاملے پر سپریم کورٹ کے کسی جج کی سربراہی میں کمشن تشکیل دیا جاتا ہے تو فریقین اس بات کی تحریری یقین دہانی کروائیں کہ کمشن کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے گا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حامد خان کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے پاس تین آپشن ہیں یا تو اس معاملے پرکمشن قائم کردیاجائے ،یا پانامہ ایشوکی خود تحقیقات کریں جوہم کرنہیں سکتے یا پھر دونوں فریقین کوسن کرفیصلہ سنائیں، اب کمشن ہی بنایاجائے گا انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ انکوائری کیلئے کوئی بھی کمشن مقررکرسکتی ہے جوصرف اسی کوجوابدہ ہوگا ۔ اس موقع پر سماعت مختصروقت دن ایک بجے تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے فریقین کے وکلاء کو ہدایت کی کہ وہ دو گھنٹوں میں مشاورت کرکے یا اپنے موکلین سے ہدایت لے کر عدالت کو تحریری طورپر آگاہ کریں ، سماعت کے دوبارہ آغاز پر حکومتی وکیل سلمان اسلم بٹ نے ایک صفحے پر مشتمل وزیر اعظم کا خیر مقدمی بیان پڑھتے ہوئے سنایا۔ وزیراعظم قانونی نتائج کو تسلیم کریں گے جس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت کمشن کو جائیدادوں اور گوشواروں تک محدود کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے وکیل نے جواب جمع کرانے کے لئے زیادہ مہلت کی استدعا کی تاہم عدالت نے ان کی استدعاکو مسترد کر دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین تحمل کامظاہرہ کریں، پورے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے اس لئے پاناما معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتے، اگر دونوں فریقین کمشن اور ٹی او آرز پر متفق نہیں ہوتے تو عدالت اپنے ٹی او آرز بنائے گی۔ عدالت نے سماعت پرسوں 11:30 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کمشن کی تشکیل اور ٹی او آرز پر تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کر لیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیاست چلتی رہے گی لیکن اب پاناما کا مسئلہ عدالت حل کرے گی، اور ا س حوالے سے ایک بھی دن ضائع نہیں کیاجائے گا، ہم کوئی حکم نہیں دے رہے لیکن بہتر سوچ کے لئے پر امید ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگ 8 ماہ سے پش اپس لگا رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے تحقیقات کیلئے تحقیقاتی کمشن تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے فریقین سے کل 3 نومبر تک ضوابط کار طلب کرلئے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے کمشن کے قیام پر تحریری یقین دہانی طلب کی تھی کہ فریقین تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا ہے کہ اگر فریقین پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ کمیشن کے ضوابط کار پر متفق نہ ہوئے تو عدالت خود ضوابطِ کار بنائے گی۔ عدالت نے کمشن کے ٹرمز آف ریفرنسز کل جمعرات 3 نومبر کو تحریری جواب طلب کرلیا جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیںکہ کوئی ہدایت نہیں دے رہے ٗسیاسی سوال میں بھی نہیں پڑینگے۔ امید ہے فریقین اپنے گھوڑوں کو روک لیں گے ٗ فریقین ملک کو ہیجانی صورتحال سے نکالنے کیلئے تحمل کا مظاہرہ کریں، عدالت مسئلے کو حل کریگی، تنازعات کے حل کا سب سے بڑا ادارہ سپریم کورٹ ہے، عدالت فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کریگی، مجوزہ کمشن کو سپریم کورٹ کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے، کمشن عدالت عظمیٰ ہی کو رپورٹ پیش کریگا۔ انور ظہیر جمالی نے کہا کہ 2 ہفتے سے اس کیس میں سنسنی پھیلائی جارہی ہے، ہائی پروفائل کیس ہے، عوام کی نظریں اس پر ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب کچھ نہ کرنے والوں سے بھی نمٹ لیں گے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ 20 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کیس 2 ہفتے میں لگانے کا فیصلہ کیا تاہم خبر لگی کہ عدالت نے کیس کی تاریخ پر نظر ثانی کردی ٗیہ سرخی کیسے لگی؟ میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ وقفے کے بعد سماعت دوبار ہ شروع ہوئی تو وزیراعظم نوازشریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکلا نے پاناما لیکس معاملے کی تحقیقات کیلئے کمشن کے قیام پر رضامندی ظاہر کردی۔ وزیراعظم نوازشریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وزیراعظم لندن کی جائیدادوں کی تحقیقات کیلئے راضی ہیں اور الزامات درست ثابت ہوئے تو وزیراعظم نتائج تسلیم کریں گے۔ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کے ٹی او آرز پر کمشن کی تشکیل پر اعتماد کا اظہار کیا جس پر عدالت نے فریقین سے تحقیقاتی کمشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر (کل) جمعرات 3 نومبر کو تحریری جواب طلب کرلیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پانامہ لیکس سے پورا ملک متاثر ہوا، عدالت کا کام ملک کو انتشار اور بحران سے بچانا ہے۔ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو 2 دن میں جواب داخل کرانے کا حکم دیدیا۔ اس سے قبل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے فریقین کو اپنے جواب جمع کرانے کی ہدایت دی اور کہا کہ ہر فریق کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیں گے، اس حوالے سے کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن