یو ٹرن خان کی پسپائی شیخ رشید کی عوامی دہائی
تین باتیں مجھے حیران کئے دے رہی ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار یکایک اچانک بیرون وطن کیوں جا رہے ہیں؟ وہ تو کہیں جاتے ہی نہیں۔ آصفہ بھٹو زرداری نے عمران خان کے لئے ایک لفظ کہا۔ اس طرح عمران کی پوری شخصیت اور پورا کردار سامنے آ گیا ہے۔ عمران خان یو ٹرن خان ہے۔ وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے ساری ہنگامی صورتحال اور سیاسی افراتفری کے دوران ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔
سب سے زیادہ مجھے جو بات حیران کر رہی ہے پہلی بار میں حیران ہونے کے بعد پریشان نہیں ہوا۔ آصفہ بھٹو نے کہا عمران خان یو ٹرن خان ہے۔ اس سے بہتر برمحل، برملا، بامعنی اور مزیدار بات عمران خان کے لئے نہیں ہوئی ہو گی۔
سنا ہے بہت اتحادی اور کارکن عمران خان سے دھرنا ختم کرنے پر ناراض ہوئے ہیں۔ کچھ دن پہلے جو لوگ عمران کے دشمن نمبر ون تھے۔ وہ آج جینوئن نمبر ون بن گئے ہیں۔ ان کی کرپشن عمران خان کی سیاست کی بنیاد تھی۔ اب وہ بنیادیں ہل گئی ہیں۔
تلاشی کی بات عمران خان کر رہے ہیں۔ اب ان کا کہنا ہے کہ یہ تلاشی اب عدالت لے گی۔ عمران خان کیا کچھ تلاش کرنے نکلے ہیں۔ ممکن ہے وہ چیزیں کچھ نہ کچھ عمران خان کے پاس بھی ہوں۔ عمران نے کہا ہے کہ تلاشی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ نجانے ختم کب ہو گا؟
اس کے لئے دھرنا چھوڑ کر عمران نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لوگ دھرنے کے لئے آئے ہی نہ تھے۔ فیصلہ تبدیل کرنے کا یہ اندیشہ عمران اور اس کے ساتھیوں کو تھا کہ لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس فیصلے کی تبدیلی نہیں بلکہ ”تبدیلی“ ہے جو آ چکی ہے۔ لوگ چاہتے تھے کہ دھرنا ہو پھر اس کے بعد تھوڑا سا ”دھر رگڑا“ ہو اور پھر بات ختم بھی کر دی جائے تو بات رہ جائے گی۔
مگر نجانے عمران کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔ ان کے دل میں تو کچھ چلتا ہی نہیں ہے۔ لوگوں نے لاٹھیاں کھائیں۔ عورتوں اور مردوں میں فرق مٹ گیا تھا۔ کئی عورتوں کو پولیس کے شیر جوانوں نے اپنے بازو¶ں میں جکڑ لیا پھر پکڑ لیا۔ پولیس کے جوانوں اور پی ٹی آئی کی عورتوں میں دھینگا مشتی ٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی رہی۔
عندلیب عباس کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہ افسوسناک ہے۔ جس طرح اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں پھینکا گیا وہ منظر کئی بار چینلز نے دکھایا۔ بنی گالہ کے باہر ایک میدان جنگ لگا رہا۔ لاٹھی چارج ہوا۔ کئی خواتین و حضرات کو پولیس والوں نے ”ڈسچارج“ کر کے واپس بھی بھجوا دیا پتھرا¶ ہوا۔ سب کچھ ہوا جو ہوتا ہے۔ جو نہیں ہوتا وہ بھی ہوتا رہا۔ مگر بنی گالہ کے آس پاس آسودگی رہی۔ عمران اور اس کے خاص ساتھی محل کے اندر صورتحال کی سنگینی اور ماحول کی گھمبیرتا سکون سے ڈسکس کرتے رہے۔
کچھ لوگ یہ ڈسکس کرتے رہے کہ رائے ونڈ اور بنی گالہ میں کیا فرق ہے؟ بنی گالہ 400 کنال کے وسیع رقبے میں بنایا گیا۔ ہمیں تو اب پتہ چلا کہ وہاں جانے کے کئی راستے ہیں۔ ہم تو کبھی گئے نہیں مگر اب جی چاہتا ہے پھر ہم سوچتے ہیں کہ کس راستے سے جائیں۔
میں پولیس والوں اور حکمرانوں سے پوچھتا ہوں کہ پولیس بنی گالہ کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو تو کچھ نہیں کہتی تھی۔ غریب مسکین عام لوگ جو ورکر کلاس سے تھے انہیں مارتے پیٹتے ہیں۔ بنی گالہ کے باہر جو خاص آدمی بھی ہتھے چڑھ گیا۔ اس کے ساتھ زورآزمائی کی گئی۔ چند ایک عورتیں ایسی ”مرد ناک“ تھیں کہ وہ پولیس کے جوانوں پر ٹوٹ پڑیں۔ ایسی کشتی کسی مار دھاڑ سے بھرپور فلم میں بھی نہ ہو گی۔
ایک بار بھی عمران بنی گالہ کے قلعہ نما محل سے باہر نہیں نکلے۔ تکلفاً باہر نکلے اور اپنے کارکنان اپنے غلاموں سے خطاب کیا۔ ان کا حوصلہ بڑھایا کہ مار کھانا ہی ورکرز کا کام ہے۔ عمران پھر اندر چلے گئے۔ بنی گالہ پر وزیراعظم ہا¶س کا گمان ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف کہیں سامنے تو نہ آئے مگر انہوں نے اس ساری صورتحال کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔ مریم نواز نہ بولی۔ مریم اورنگزیب بھی نہ بولی جو تازہ تازہ وزیر ہوئی ہیں۔ نواز شریف مریم نواز کو وزیر نہیں بنا سکتے تھے مگر اس کی ہمنام اس کی میڈیا ٹیم کی ایک رکن تو بنا سکتے ہیں۔ لوگ کنفیوز ہیں۔ آج کسی اخبار میں تصویر مریم اورنگزیب کی ہے اور بیان مریم نواز شریف کا ہے۔
شیخ رشید بھی یاد آیا ہے جس نے بار بار عمران کے ساتھ دوستی کا اعلان کیا۔ اسے یہ کہنا پڑا کہ عمران کو لال حویلی آنا چاہئے تھا۔ عمران نے کہا کہ کپتان اپنے دل سے پالیسی بناتا ہے۔ کسی کے کہنے پر سڑکوں پہ مارا مارا نہیں پھرتا۔ یہ بھی شیخ رشید نے کہا کہ عمران کو دھرنا م¶خر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ عمران خان اور شیخ رشید میں فرق ہے۔ شیخ گلی محلے کا ایک غریب آدمی ہے جو اپنی قربانی اور محنت سے لیڈر بنا ہے۔ عمران نے اپنے آپ کو خود لیڈر بنا لیا ہے۔ خواتین و حضرات اس کے دیوانے ہو گئے ہیں۔ عمران اس صورتحال کو جانتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں۔
شیخ رشید بہرحال موٹرسائیکل پر بیٹھا ہوا اور چھپتا چھپاتا کمیٹی چوک پہنچ گیا۔ میں اسے سلام کرتا ہوں۔ مگر لال حویلی کسی کا راستہ دیکھتی رہی۔
نجانے کس نے کہا کہ عمران یوم پسپائی منائے اور شیخ رشید یوم رسوائی منائے۔ ورکرز کے لئے رسوائی بھی معرکہ آرائی ہوتی۔ شیخ لوگوں کے درمیان رہا اور عمران بنی گالہ میں چھپے رہے۔ اپوزیشن میں بھی عمران اپنی پوزیشن کا خیال کرتے ہیں۔ انہیں بلھے شاہ کا مصرعہ بتا¶ں۔ ”تینوں اکو الف درکار“ عمران کہیںگے کہ مجھے اب (ABC) بھی بھول گئی ہے۔
اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے آس پاس پولیس بڑے وحشیانہ انداز میں عورتوں کو گرفتار کر رہی تھی اور وہ دونوں لوگوں سے خطاب کر رہے تھے؟ بنی گالہ میں بھی عمران خان اور ان کے ساتھی اپنی عورتوں کی چیخیں سن رہے ہوں گے۔
کہتے ہیں کہ اب پانامہ لیکس پر کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو گا۔ اس کے بعد پاجامہ لیکس پر کون فیصلے کرے گا۔ نوازشریف نے پہلے مشاہد اللہ خان کو قربان کیا پھر پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنایا۔ ہمیں مشاہد اور پرویز رشید کے لئے افسوس ہے۔ وہ نہ کرپٹ ہیں نہ بے وفا۔ ایک سادہ آدمی مگر کمزور ضرور ہیں۔ عام آدمی البتہ ہیں۔ نواز شریف کا بس بھی انہی پر چلتا تھا۔ مجھے اپنے دوستوں اور خاص طور پر محترمہ ڈاکٹر صغرا صدف سے افسوس کرنا ہے کہ پرویز رشید نے پیلاک کے ادبی معاملات میں بہت دلچسپی لی تھی۔