گوادر پر پہلا جہاز۔۔۔۔لنگر انداز
گوادر کی بندرگاہ مستقبل قریب میں بین الاقوامی صنعتی و تجارتی مرکز بن کر ابھرے گی جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ مکر ان ساحل کے ساتھ واقع چھوٹی سی مچھیروں کی بستی میں چائنہ کا پہلا جہاز بھی لنگر انداز ہو چکا ہے۔ چھوٹی سی مچھیروں کی بستی بین الاقوامی اہمیت کی حامل کیسے ہوئی اس کے لیے تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ گوادر بندرگاہ اور اس کے متعلقہ علاقے کا انتظام 1784سے مسقط اور عمان کے سلطان کے پاس تھا۔ حکومت پاکستان کے جاری ہونے والے اعلامیے 7ستمبر 1958 کے تحت گوادر کا مکمل انتظام پاکستان کے پاس آگیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ گوادر دو الفاظ "گوا"اور "در"سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں "ہوا کا دروازہ"وادی مکران کا یہ شہر تاریخی لحاظ سے ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ حضرت عمر ؓ کی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا گیا تو مکران بھی اسلامی ریاست کا حصہ بنا۔ 711میں محمد بن قاسم نے اسی علاقے میں حکمرانی کی اور مغلیہ دور میں بھی یہ علاقہ مغل حکمرانوں کی سلطنت کا حصہ رہا۔ گوادر شہر کے جغرافیہ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ گوادر پاکستان کے انتہائی جنوب مغربی ساحلی پٹی پر خلیج فارس کے داخلی راستے پر واقع ہے جو کہ دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے اور اپنے شاندار محل وقوع کے اعتبار سے عالمی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ شہر گوادر کراچی کے مغرب میں تقریباً 460کلو میٹر، ایران کے مشرق میں 80کلو میٹر اور عمان کے شمال مشرق میں 380کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر گوادر بندرگاہ سٹریٹجک اہمیت کے حامل تین خطوں جن میںمشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور مغربی چائنہ اور وسط ایشیا شامل ہیں، کی ضروریات پوری کرے گا۔ گوادر بندرگاہ پاک چین دوستی کا نشان ہے۔ ECOہائی وے، کوسٹل ہائی وے اور سڑکوں پر مشتمل انفراسٹرکچر گوادر فری پورٹ کو وسط ایشیائی ممالک، خلیجی ریاستوں، چائنہ اور دیگر ممالک سے منسلک کر دے گا۔ 21ویں صدی کی جدید سہولیات سے آراستہ گوادر بندرگاہ پر نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ انحصار اس پر ہو گا۔ گوادر بندرگاہ سے قریباً بیس لاکھ افراد کو روزگار مہیا آئے گا اور اربوں ڈالر زرمبادلہ حاصل ہو گا۔ گوادر سے کراچی اور پھر قراقرم ہائی وے لنک توسیعی منصوبے پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے جس سے چین کو بحر ہند تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ ان رابطہ سڑکوں کو "پاک چین اقتصادی راہداری"کا نام دیا گیا ہے۔ اس راہداری کی بدولت چائنہ کا دنیا سے فاصلہ کئی ہزار کلو میٹر کم ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر چین کے لیے خلیج فارس کا تیل 16ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے قریباً3ماہ میں شنگھائی ایئر پورٹ اور تیل کی سپلائی بھی سارا سال جاری رہے گی۔ چین اپنی برامدات و درآمدات کے لیے اسی راہداری کو استعمال کرے گا۔ اس ضمن میں پاکستان کو محصولات کی صورت میں اربوں ڈالر ملیں گے جو ملکی زر مبادلہ میں خاطر خواہ اضافے کا سبب ہونگے۔ چین کی حکومت کی دلچسپی کے علاوہ حکومت پاکستان، افواج پاکستان شہروں کی طرح ترقی دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ گوادر کو جدید پر کشش ڈھانچوں کے ساتھ دنیا کا بہترین تجارتی و معاشی مرکز بنایا جائے۔ تاجروں کا تجارتی مرکز بننے کے باعث گوادر دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہو گا۔ ٹیکس استشنیٰ حاصل ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا اور اس کی ترقی دوسرے علاقوں کی ترقی پر بھی اچھے اثرات مرتب کرے گی۔ گوادر میں جدید طریقہ سے صنعتی، رہائشی و کاروباری سہولتیں اور سیاحوں کے لیے ساحل سمندر اور جدید ہوٹلوں کی سہولیات میسر ہونگی۔ گوادر بندرگاہ پاکستان کی درآمدات و برآمدات کیلئے آپریشنل ہو چکی ہے۔ شہر میں ہسپتال، سٹیڈیم، بریجز، سوک سینٹر، کلچرل کمپلیکس، پارکس، پوسٹ آفس، پولیس اسٹیشن، انڈسٹریل اسٹیٹ، گورنمنٹ، دفاتر بھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ یہاں جو سرکوں کا جال بچھ رہا ہے اس پر بھی نظر ڈالتے ہیں: گوادر شہر کے اندر 200کلو میٹر سے زائد طویل اور انتہائی کشادہ سڑکیں مکمل ہو چکی ہیں مکران کوسٹل ہائی ویز 653کلو میٹر گوادر سے کراچی براستہ پسنی اور عمارہ مکمل ہو چکی ہے۔ موٹر وے M-8گوادر سے رتو دیر صوبہ سندھ براستہ خوشاب اواران، خضدار اور تربت 820کلو میٹر مکمل ہو چکی ہے۔ قراقرم ہائی ویز کی آسائش و توسیع کا کام جاری ہے تاکہ ہر موسم میں قابل استعمال ہو۔ چائنہ اور پاکستان معاشی راستہ روڈ گوادر سے کاشغر ٹوٹل850کلو میٹر سے اب تک 550کلو میٹر مکمل ہو چکی ہے۔ سڑک کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ گوادر سے کاشغر تک ریل کی پٹری کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ گوادر ایئر پورٹ کی توسیع کی گئی ہے جبکہ گوادر بین الاقوامی ایئر پورٹ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ چائنہ کے تعاون سے پاکستان و چائنہ کی سرحد پر ڈرائی پورٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ گوادر گیس سپلائی پراجیکٹ اور گوادر انڈسٹریل گرڈ اسٹیشن کا افتتاح ہو چکا ہے۔ گوادر صنعتی علاقے کیلئے پینے کے صاف پانی کا پلانٹ جس کی صلاحیت 20ملین ہے اس کا 90فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ ان علاقوں میں ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہے۔ کسی بھی بندرگاہ کی اہمیت اس کی گہرائی اور وہاں لنگر انداز ہونے والے جہازوں سے بخوبی اخذ کی جا سکتی ہے۔ اگر گوادر کا موازنہ دنیا کی کسی بھی بڑی بندرگاہ سے کر لیں تو اس کی گہرائی زیادہ ہے۔ گوادر بندرگاہ کی میٹروں میں گہرائی 182میٹر ہے جبکہ مشہور بندرگاہیں جبلِ علی، بندر عباس، چاہ بہار اور دوہا کی بالترتیب 16میٹر، 10میٹر،11میٹراور 12میٹر ہے۔ گوادر کی تکمیل کے بعد یہاں 120جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے جبکہ جبل علی میں 67بندر عباس میں 24اور دوہا بندرگاہ پر ایک وقت میں 29جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔ معاشی اعتبار سے گوادر پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔ تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے باعث اس شہر کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں اس کا شمار دبئی، سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے شہروں میں ہو گا۔