صد شکر کہ پاکستان محاذ آرائی سے محفوظ ہو گیا
گزشتہ کئی سالوں سے وطن عزیز دہشت گردی‘ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دیگر کئی نو کے مافیا اور کرپشن کی گرفت میں بُری طرح پھنسا ہوا تھا۔ اس مجموعی صورتحال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک ایسی جنگ کی ناقابل بیان حالت کر رکھی تھی جس کا کوئی مؤثر حل نظر نہیں آتا تھا۔ چند برس پہلے ملکی سرحدوں کا دفاع اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے اس حد تک کنٹرول سے بے قابو ہوتا جا رہا تھا کہ خیبر پی کے میں نہ صرف افغان سرحد سے ملحقہ دئیر اور باجوڑ ایجنسیوں سے دشمنوں اور دہشت گردوں کے قبضہ میں چلے جانے سے ان علاقوں میں حکومت پاکستان کی رٹ اور اتھارٹی ختم ہو گئی تھی بلکہ مالاکنڈ ڈویژن بشمول سابقہ ریاست سوات کا نظم و نسق دہشت گردوں نے اپنے کنٹرول میں سنبھال رکھا تھا۔ اس نازک موڑ پر پاکستان کی بہادر افواج نے نہایت جرأت اور شجاعت سے ہزاروں جانوں کی قربانی دیکر ان تمام علاقوں میں حکومت پاکستان کی رٹ اور اتھارٹی کو بحال کیا اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کے بعد دو سال کے عرصہ میں جنوبی و شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کی پے در پے کامیابیوں سے اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جذبہ ایمان کی بدر و حنین معرکوں کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ اس عمل میں افغان سرحد کے مشکل ترین اور سنگلاخ علاقہ شوال میں دہشت گردوں کا خاتمہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو حالیہ ایام میں قومی سلامتی کے حوالے سے جو اندرونی و بیرونی چیلنجر درپیش ہیں وہ پاکستان دشمن قوتوں کا ایک ایسا خوفناک منصوبہ ہے جس کا اظہار کرنے میں حالیہ انٹرنل سیکورٹی کا ادراک لازم ہے۔ جس کا بیرون ملک پاکستان دشمن میڈیا تھینک ٹینک اور خفیہ ایجنسیاں مثلاً بھارت کی RAW اور اس کی دیگر ہمنوا ایجنسیاں اور قوتیں اب کھلم کھلا اس رائے کا اظہار کرتی ہیں کہ پاکستان کو اولاً غیر مستحکم اور بالآخر بے اثر کرنے کیلئے اس ملک کی ایٹممی صلاحیت کو بے اثر کرنا لازم ہے۔ اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان کی فوجی قوت اور قیادت کو عوام کی نظروں میں گرا کر ان کے امیج اور وقار کو متنازعہ بنا کر عوام کی حمایت سے محروم اور برسر اقتدار حلقوں کے ساتھ طرح طرح کی اُلجھنوں اور غلط فہمیوں کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر ریاست کے ان اہم ستونوں میں انتشار اور بداعتمادی کو ہَوا دینے میں کوئی دقیقہ فر و گذاشت نہ کیا جائے۔ بھارت کی قیادت دیرینہ مدبّر اور فلاسفر چانکیہ کے فلسفے پر عرصہ سے کاربند ہیں۔ لیکن بھارت کا موجودہ وزیراعظم جو آج بھی اسی غلیظ ذہنیت پر کاربند ہے۔ یہ بھول گیا ہے کہ پاکستانی قیادت اپنے دشمنوں کی تمام زہریلی سازشوں سے بخوبی واقف ہے ؎
اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تم کو
اترا تیرے کنارے جب کارواں ہمارا
باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سوبار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
جیسا کہ اس کالم کے عنوان سے ظاہر ہے کہ پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں نے ملکر پاکستان کے اندرونی انتشار اور تفرقہ جات جن کی نوعیت میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ 2 سالوں کے دوران ایسے حالات پیدا کئے کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر حالات کو متواتر کشیدہ رکھتے ہوئے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بانڈری پر پاکستان پر جنگ کا ہوا کھڑا کرنے کی کوشش کی اور نریندر مودی نے افواج پاکستان پر بھارتی فوج کے خلاف لائن آف کنٹرول پر سرجیکل سٹرائیک کا من گھڑت بیہودہ الزام لگا کر پاکستان کی انٹرنل سکیورٹی کو بھی صوبائی تفرقات فرقہ واریت کے شرمناک ڈھونگ رچانے اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے اندر طرح طرح کے توڑ پھوڑ کے الزامات کو ہَوا دیتے ہوئے پاکستان کی ریاست کو مختلف نوعیت کی اندرونی کشمکش اور ذہنی دبائو کا شکار بناتے ہوئے سول سوسائٹی کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے لئے اپنی مختلف خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے جن میں بھارت کی RAW اول نمبر پر ہے‘ پورے پاکستان کو ایک غیر یقینی ذہنی دبائو کی حالت میں لا کر ایسا ماحول کھڑا کیاجسے ہم ایک طوفان بالا کی زد میں ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس کار ثواب میں اپنا حصہ ڈالا۔ چنانچہ جس اخبار کو اٹھا کر دیکھیں یا جس ٹی وی چینل کو لگائیں وہاں ہر خبر بریکنگ نیوز کے انبار سے سنسنی خیز ماحول کی پیشن گوئی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یکم نومبر کی صبح میرا مندرجہ بالا تجزیہ اپنے نقطہ عروج پر تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا لاعلاج مریض بن چکا ہے جس کو بالآخر مایوس ہونے سے پہلے انتہائی نگہداشت کے INTENSIVE CARE UNIT (ICU) میں داخل کر دیا گیا ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب انور ظہیر جمالی ایک مسیحا بن کر منظر پر سامنے آئے جیسے ویرانے میں چپکے سے چلے بادِ بہار اور بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے۔ انہوں نے اپنے فاضل بینچ کے مشورے کے بعد جو تاریخی فیصلہ سنایا اس سے فلک پر چھایا ہوا GATHERING STORM بادِ نسیم میں تبدیل ہو گیا۔ اسلام آباد کو گھیرے میں لینے والا طوفان یکایک تھم گیا۔ متحارب نعرے فضا میں گم ہو گئے اور تمام فریقین نے اطمینان اور مسرت کے جھرمٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کیا۔ یہ ایک خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ تادمِ تحریر پاکستان کے کسی سیاسی جماعت دانشوروں کے تھینک ٹینک اور میڈیا کے تجزیہ نگاروں اور نام گرامی اینکروں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر منفی تنقید نہیں کی ہے۔ یہ امر میری زندگی میں پہلی دفعہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ایسی وحدت فکر کی عکاسی کرتا ہے جس پر لاکھ بار صد شکر کرتے ہوئے باری تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ عزت مآب چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی اپنے فیصلے پر بلاتاخیر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے اسے بے مثال بنا دیں۔