جمہور ناسمجھ ہو تو جمہوریت ہے کیا؟
لیڈر کو کیوں لوگوں کی نفرت اور حقارت سے بچنا چاہیے…؟ اور کیوں لوگوں کی آواز کو دھیان سے سننا چاہیے اس کی اہمیت جاننے کے لیے میکیاولی کی کتاب ’’پرنس‘‘ کا ایک باب اہمیت کا حامل ہے میکیاولی لکھتا ہے ’’ میں اب اپنی بات یہ کہہ کر ختم کرتا ہوں کہ شہزادوں کے لیے آجکل فوجیوں کو خوش رکھنا اتنا ضروری نہیں جتنا پہلے زمانے میں تھا… سلطنت روما کے زمانے میں فوجیں فنون سپاہ گری کے علاوہ فنون جہاں بانی وحکمرانی پر بھی حاوی ہوتی تھیں… اس لیے اس زمانے میں عوام کی ناز برداری زیادہ ضروری نہیں تھی لیکن آج کل عوام زیادہ طاقت ور ہے لہذا عوام کی ناز برداری زیادہ ضروری ہے ‘‘ … عمران خان کے دھرنا کے اعلان کے بعد عوام کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا اور خواجہ سعد رفیق نے دھرنا جلسہ میں بدلنے کے موقع پر جلسہ میں شریک عوام کو جس طرح ’’سیاسی آوارہ گرد‘‘ کہا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت فوج کے ساتھ تعلقات بھی خوشگوار نہیں رکھ سکتی تو عوام کی ناز برداری اور عزت کا خیال بھی نہیں رکھ سکتی… مرتضے برلاس کے اشعار ہیں
خالق کا خوف جس کو ‘ نہ مخلوق کا خیال
گر یہ نہیں تو پھر کہو‘ فرعونیت ہے کیا
چاہو جدھر کو ہانک دو اپنے مفاد میں
جمہور ناسمجھ ہو تو جمہوریت ہے کیا
اب یہ کہنا کہ پانامہ لیکس سے ڈان لیکس تک کے واقعات موجود نہیں ہیں تو غلط ہوگا اور پھر یہ سوچنا کہ ملک میں جمہوریت ہو اور اپوزیشن فرینڈلی بن کر اس جمہوریت کو بادشاہت میں بدلنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے تو یہ بھی درست نہیں ہے… لہذا عمران خان اگر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں اور عوام ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو اس میں اعتراض والی کوئی بات ہو نہیں سکتی… اور پھر اگر اتنا سارا شور شرابہ بھی نہ ہو تو اداروں کو تباہی جس طرح اس دور حکومت میں دیکھنے میں آرہی ہے اس کی مثال دینا بھی دشوار ہے کیونکہ اب تو ریوڑیاں اندھوں کی طرح بانٹ دی گئیں ہیں۔ جبکہ کام کاج کچھ بھی نہیں ہورہا ہے… تو ایسے میں سارے کے سارے لوگ چپ کی چادر اوڑھ کر اس تباہی کا ثماشہ دیکھتے رہیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ حکومت کی طرف سے ایک اور رویے پر حیرت ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ نکلنے والی عوام اوراس عوام کی آواز پر دھیان دینے کو تیار ہی نہیں ہے جسے ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے… بلکہ ان کا تمسخر اڑایا جاتا ہے تو کیا پاکستانی عوام کا تعلق اس ملک کے مسائل یا کسی دوسری سیاسی پارٹی سے نہیں ہوسکتا یا پھر وہ عوام ہی نہیں ہے جو حکومت وقت کے ساتھ نہ کھڑی ہو یا مسلم لیگ ن سے تعلق نہ رکھتی ہو…یعنی جو عوام حکومت کے ساتھ ہے وہ ٹھیک ہے اورجو عوام اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہے وہ بقول سعد رفیق’’ سیاسی آوارہ گرد ہیں‘‘ اور اس مرتبہ یہ تفرقہ ڈال کر بھی اس حکومت نے کوئی نیک کام نہیں کیا … اسی طرح عمران خان کی کرپشن کے خلاف مستقل مزاجی کے ساتھ "Move" کو بھی معمولی سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے… پچھلے دنوں ایک ادارے سے ایک شخص بحیثیت ڈی جی ریٹائرڈ ہوا اس نے جو کمائی کی تھی اس کے نتیجے میں دو پلازے بھائیوں کے نام ‘تین گھر علیحدہ علیحدہ اپنی اولاد کے نام ‘ اپنے بیٹے کو شاندار دفتر بنا کر دینے کے بعد اپنے ہاتھ خالی رکھے اب کوئی مائی کا لال چیک کرے تو وہ ایک ایسے معزز فرد ہیں جس کے نام پانچ مرلہ کے گھر کے علاوہ کچھ نہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے دولت کمانے کے لیے کوئی کرپشن نہیں کی ہوگئی… ایک دولت مند شخص کس طرح اپنی دولت مند اولادوں اور بہن بھائیوں میں بانٹ کر خود کو غریب ثابت کرتا ہے اس پر حیرت اور افسوس ہونے لگتا ہے… اب عمران خان نے اپنی ساری امیدیں سپریم کورٹ سے وابسطہ کی ہیں جو کہ ایک سپریم ادارہ ہے … کہنے کو تو پارلیمنٹ اقتدار اعلیٰ ہے لیکن ہماری پارلیمنٹ کے اراکین ہمارے ہاں کے مخصوص کلچر کی موجودگی میں منتخب ہوتے ہیں تواحتساب سے مبرا ہو جاتے ہیں لہذا ووٹرز انہیں منتخب کرکے جس اعتماد کا اظہار کرتے ہیں وہ اس اعتماد کو دھوکہ دینے لگتے ہیں… اور کوئی عدالت ایسی نہیں ہے کہ جو انہیں عوام کا اعتماد مجروع کرنے پر سزا دے سکے… اور پاکستان میں عوام کو جس انداز سے لیا جاتا ہے اس کا اندازہ عمران خان کے دھرنے یا جلسے میں نکلنے والی عوام کے ساتھ سلوک کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے جس کے بعد اس بات کا یقین معدوم ہوتا جارہا ہے کہ یہ عوام بھی اسی حکومت کی عوام ہے… اب عمران خان اور عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی ہیں ماضی میں نظام عدل سے بھی کئی گلے شکوے منسوب رہے ہیں… سپریم کورٹ کی نو رکنی بنچ نے جنرل محمد ضیاء الحق کے پارلیمنٹ کو توڑنے اور مارشل لاء نافذ کرنے کو احتیاج ریاست اور فلاح عامہ کی خاطر درست قرار دیا تھا… اور یہ بھی کہا تھا کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ’’قانون سلامتی‘‘ کے تحت جو چاہے کرسکتا ہے وہ آئین میں بھی ترمیم کرسکتا ہے ملک کی اعلی ترین عدالت کے اس فیصلے کا سہارا لے کر آئندہ سالوں میں آئینی پاکستان میں کئی ترامیم کی گئیں لیکن پھر ستم یہ بھی ہوا کہ حکومت نے عدلیہ کی فراہم کردہ سہولت سے ہی عدلیہ پر ضرب لگا دی اور 1981ء کے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت مارشل لاء کے دور کی تمام کارروائیوں کو عدالتی عمل دخل سے خارج کر دیا اور فوجی عدالتوں کے ہر عمل کو عدالتی تبصرے یا جائزے سے بالا قرار دے دیا… اسی طرح 17 اپریل 1993ء کو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ریڈیو ‘ ٹی وی پر قوم سے خطاب کرکے صدر اسحق خان کے بار ے میں کہا کہ وہ میری حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں… صدر اسحق خان نے اگلے دن قومی اسمبلی کو توڑ دیا جس پر چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے براہ راست یہ معاملہ ہاتھ میں لے کربراہ راست سپریم کورٹ میں برائے سماعت داخل کر دیا اور سپریم کورٹ نے فیصلہ صدارتی حکم کے خلاف دے دیا لیکن یہ سہولت محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس وقت نہیں دی گئی جب صدر نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا… تب سپریم کورٹ نے صدارتی فیصلے کی توثیق کر دی تھی… ہمارے ہاں نظام عدل پر اسی لیے کئی شکوک وشہبات موجود ہیں غریب امیر کے لیے قانون یکساں ہو جائے اور اگر ایسا نہ ہو تب دلبرداشتہ ہو کر اس طرح کے شعر سامنے آنے لگتے ہیں
ہے جونظام عدل کچھ اس کی بھی یہ مثال ہے
جیسے نشے میں دھت کوئی مست خرام چل پڑے
ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو بڑی کامیابی ملتی رہی ہے اور یہ کامیابی عوامی مینڈیٹ کی شکل میں ہوتی تھیں… اس سے پہلے بھی ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مغربی پاکستان میں بھاری مینڈیٹ ملا تھا لیکن نتیجہ کیا نکلتا رہا؟ اکثر غیرمعمولی کامیابی بھی عبرت کا نشان بن کر سامنے آتی رہی… چرچل نے کہا تھا ’’ اقتدار کی عظمت کے ساتھ احتساب کی ہیبت جڑی ہوتی ہے‘‘