سیاسی اور ماحولیاتی گرد و غبار
وطن عزیز پر چھائے سیاسی گرد و غبار پر تو افراد اور اداروں سمیت ہر کوئی متفکر نظر آتا ہے اور آج عمران خان کے اظہار تشکر والے جلسے کے شرکاءکی تعداد سے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت تک کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی گرد و غبار موضوع¿ بحث بنا ہوا ہے مگر گزشتہ تین روز سے لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں کے علاوہ حیدر آباد سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی فضا پر گرد و غبار کی جو چادر تنی ہوئی ہے اور اس سے عجیب اداسی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے، ہمارے اکابرین اور اداروں کو اس کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کر لینا چاہئے کہ کہیں ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب سے ہمارے اعمال کی سزاﺅں کا نقشہ تو نہیں بنایا جا رہا۔
ہمارے بعض روشن خیال حلقوں کو تو اس بات سے ہی چڑ ہے کہ طوفانوں، سیلابوں اور زلزلوں کی شکل میں رونما ہونے والی قدرتی آفات کے اسباب میں خالقِ کائنات خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے انسانوں کے لئے آزمائش اور گناہوں کی سزا کا تذکرہ کیوں کیا جاتا ہے۔ اس سال کے آغاز میں دھرتی کو جھنجوڑنے والے اور انسانی اوسان خطا کرنے والے زلزلے پر مَیں نے اپنے کالم میں اجتماعی توبہ کے لئے ربِّ کائنات سے رجوع کرنے اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی اپیل کی تو کئی ”روشن خیال“ احباب نے اسے میری دقیانوسی سوچ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ انہیں زیر زمین پلیٹوں کے اپنے مقام سے سرکنے کے عمل سے تو زلزلے کے اسباب بنتے نظر آ جاتے ہیں مگر پلیٹس کس کے دستِ قدرت میں ہیں اور ان کے اوپر زمین کو کھڑا کس نے کیا ہے، ان کی روشن خیالی اس بحث کو دنیاوی سائنسی علوم کی ضد سمجھتے ہوئے انہیں اس کی تضحیک کے شوق میں مبتلا کر دیتی ہے۔ نظام کائنات کے بارے میں خالقِ کائنات سے بہتر بھلا اور کسی کو ادارک ہو سکتا ہے۔ اس کرہ¿ ارض پر تخلیق و تباہی کے سارے اسباب اسی ذاتِ باری تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہیں جس تک ناقص انسانی سوچ کی رسائی ممکن ہی نہیں، اگر ربِّ کائنات نے خود اپنی کتابِ ہدایت، صحیفہ¿ آسمانی قرآن مجید میں زلزلوں اور دوسری قدرتی آفات کے ذریعے سرکش انسانوں کوآزمائش میں ڈالنے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگ کر راہِ ہدایت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور زلزلوں کے ذریعے اس کرہ¿ ارض کے جھنجوڑے جانے اور پہاڑیوں سمیت اس دھرتی پر موجود ہر چیز کے پُرزے پُرزے ہو کر روئی کے گالوں کی طرح اُڑانے کے عمل کا قیامت کی نشانیوں کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے تو اس کو رد کرنے کے لئے ناقص انسانی عقل کے تحت کسی منطق اور استدلال کی بنیاد پر بحث و تمحیص کی گنجائش بھلا کہاں نکلتی ہے۔ نظامِ کائنات بہر صورت ربِّ کائنات ہی کے دستِ قدرت میں ہے۔ چنانچہ اس نظام کے حوالے سے کسی تغیّر و تبدل پر ہمیں ربِّ کائنات سے ہی رجوع کرنا ہے جس میں کسی بحث اور دلیل کی قطعاً گنجائش نہیں۔
ذرا اسی تناظر میں ارضِ وطن کی فضاﺅں پر چھائے گرد و غبار کا جائزہ لیں تو اس کے پیش آمدہ مسائل ہم سے تفکر و تدبر کا ہی تقاضہ کرتے ہیں۔ اس گرد و غبار کو کئی دوست احباب دُھند کا نام دے رہے ہیں حالانکہ دُھند میں نمی ہوتی ہے اور وہ کبھی کبھار بارش کی طرح برستی بھی نظر آتی ہے مگر ہماری فضاﺅں پر چھائے گرد و غبار کا اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اسے کسی صورت دُھند کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں نمی کا شائبہ تک نہیں ہے اور یہ خزاں آلود موسم کی طرح انسانی ذہنوں پر قنوطیت والے اثرات غالب کر رہا ہے۔ اکثر لوگ یہ شکایت کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ اس گرد و غبار کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں جلن شروع ہو گئی ہے اور ان کے لئے سانس لینا بھی محال ہو رہا ہے غالباً یہ گرد و غبار ہر ذی روح میں زندگی کی علامت بن کر داخل ہوتی آکسیجن کو بھی اپنی جانب کھینچ رہا ہے جس کے نتیجہ میں فضاﺅں میں آکسیجن کی کمی واقع ہو رہی ہے اور انسانوں کے لئے سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ آپ اس ایک خیال سے ہی اندازہ لگا لیں کہ ہم کرّوفر اور نخوت و تکبر کے سانچے میں ڈھلے انسان قدرت کی جولانیوں کے آگے کتنے بے بس ہیں۔ ذرا تصور کیجئے آج ایک لمحے کو کرہ¿ ارض پر آکسیجن ناپید ہو جائے تو یہاں کہیں بھی زندگی کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔ پھر نظامِ کائنات چلانے کی ربِّ کائنات کی حکمت کے آگے بھلا کوئی پَر مار سکتا ہے؟ بھئی ہم یہ قیافے تو لگا سکتے ہیں، ٹامک ٹوئیاں تو مار سکتے ہیں کہ ارضِ وطن پر چھائی گرد و غبار کا سبب ہماری جانب سے تیزی سے پھیلائی گئی ماحولیاتی آلودگی بھی ہو سکتی ہے۔ آج انسانی آبادیاں صنعتوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کے جمِ غفیر سے نکلتے زہریلے دھوئیں نے بھی ماحولیاتی آلودگی کے اسباب پیدا کئے ہیں اور ہماری جانب سے درختوں کو بے دریغ کاٹنے کے عمل سے بھی موسموں میں رد و بدل ہو رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے تو لازماً انسانی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں ہی ہماری فضائیں مکدر ہو رہی ہیں۔ سو ہماری فضاﺅں پر طاری آج کا گرد و غبار انہی انسانی بے تدبیریوں کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین ارضیات تو اس حوالے سے گزشتہ اڑھائی تین سال سے چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ ہم نے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر کے موسمی تغیّر و تبدل کے اسباب پیدا کر دئیے ہیں جو بالآخر اس کرہ¿ اراض پر انسانی تباہی پر منتج ہوں گے۔ مگر اس پر نہ تو متعلقہ ادارے فکر مند ہیں، نہ حکومتوں کے کانوں پر جوں رینگتی نظر آتی ہے اور نہ ہم انسانوں نے انفرادی طورپر ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کا کبھی سوچا ہے۔ گرد و غبار سے بچاﺅ کے لئے وقتی طور پر تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں کہ اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے دروازے اور کھڑکیاں مکمل بند رکھی جائیں تاکہ اس گرد و غبار کی کوئی لہر اندر داخل نہ ہو سکے، اگر باہر نکلنا ہے تو ماسک پہنے بغیر نہ نکلےں اور آکسیجن کی کمی محسوس ہونے کی صورت میں فوراً قریبی ہسپتالوں کا رُخ کیا جائے اور آنکھوں میں جلن محسوس ہونے پر عرق گلاب کے چھینٹے ماریں مگر قدرت کی منشا کے آگے سر جھکانے اور راضی برضا ہونے کی سوچ کہیں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی۔ آج تو ناصر کاظمی کے اس شعر جیسی کیفیت بنی نظر آ رہی ہے کہ
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
تو ہمنفسو! کوئی چارہ کر لو، خالقِ کائنات کے آگے سجدہ ریز ہو جاﺅ، سرکشی سے باہر نکل آﺅ اور راہِ ہدایت کے لئے کتابِ ہدایت کو رہنما بنا لو، مظاہر قدرت کا مذاق نہ اڑاﺅ اور موسم بدل رہے ہیں تو خود بھی بدل جاﺅ ورنہ قدرت کے اسباب نظر آ رہے ہیں۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔