سانحہ کوئٹہ: ایمبولینس تھی نہ سٹریچر، پیرا میڈیکل سٹاف فلم بناتا رہا، زخموں پر ٹائیاں باندھیں: عینی شاہد ڈاکٹر
کوئٹہ (بیورو رپورٹ) کوئٹہ میں سانحہ آٹھ اگست کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں قائم انکوائری کمشن کی کارروائی کے دوران دھماکے کے بعد کی عینی شاہد لیڈی ڈاکٹر نیانکشاف کیا کہ دھماکے کے بڑی تعداد میں زخمی ایسے تھے کہ جنہیں اگربروقت طبی امداد دی جاتی تو انہیں بچایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ وہ شعبہ حادثات میں تھیں کہ 9 بجکر 30 منٹ کے قریب زوردار دھماکہ ہوا اسی وقت فائرنگ کی آواز بھی سنائی دی، دھماکے کی جگہ پہنچ کر دیکھا تو لوگ بھاگ رہے تھے، بڑی تعداد میں وکلاء پڑے تھے، زخمی بھی تھے۔ انکوائری جج نے ان سے استفسار کیا کہ کیاوہاں پر کوئی اور ڈاکٹر نظر آیا اس پر ڈاکٹر شہلا کا جواب تھا کہ دھماکے کی جگہ مجھے کوئی ڈاکٹر یانرس نظر نہیں آئی میرے پاس کوئی سامان نہیں تھا، میں نے زخمیوں کو ان کی ٹائی سے باندھا کہ خون رک جائے،، کافی اور وکلاء بھی قریب تھے، میں نے انہیں مدد کیلئے آواز دی چار وکلاء مدد کیلئے آگے آئے، بدقسمتی سے زخمیوں کو اٹھانے کیلئے کوئی سٹریچر دستیاب نہیں تھا، کچھ افراد کو دیکھا جو پیرامیڈیکل کے نیلے گاون میں تھے، وہ مووی بنا رہے تھے، میں نے عملے کے لوگوں کو مدد کیلئے پکارا،مگروہ مجھے نظرانداز کرکے مووی بناتے رہے بعد میں دیگر وکلاء وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مدد کی دھماکے کے زخمیوں کو سرجری کے شعبہ منتقل کرناشروع کیا،اس وقت ایمبولینس نہیں تھی،انکوائری جج نے سوال کیا کہ دھماکے کے کتنی دیر بعد لوگ آئے۔ انہوں نے بتایا دھماکے کے 45منٹ بعد وہاں ایم ایس کو دیکھا، دھماکے کے 45منٹ بعد تک لاشیں کور نہیں تھیں، اس پر سابق ایم ایس ڈاکٹر عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے میں دھماکے کے بعد 20،25منٹ کی تاخیر سے پہنچا ہوں دھماکے کی جگہ پہنچنے کے بعد میں وارڈز، ایمرجنسی، ادھر ادھر زخمیوں میں مصروف تھا، اسٹریچر موجود تھا، شعبہ حادثات کے 13 سٹریچر استعمال میں تھے اور سول ہسپتال کی ایمبولینس بھی احاطے میں موجود تھی، اس پر ڈاکٹر شہلا نے کہا کہ انہوں نے پارکنگ ایریا میں تین ڈرائیور دیکھے، پوچھا ایمبولینس کہاں ہے، جواب ملا ایمبولینس نہیں ہیں۔ ایک ڈرائیور کا نام اسحاق، دوسرے کا نور اور تیسرے کانام یاد نہیں، انکوائری جج نے ان اسے استفسار کیا کہ کیا کسی نے آپ سے دھماکے کی جگہ جانیکا کہا تھا یا آپ خود گئیں اس پر انہوں نے جواب دیا کہ کسی نے مجھے دھماکے کی جگہ جانیکا نہیں کہا، میں خود رضاکارانہ طور پر وہاں گئی، 2010 میں ہسپتال کے شعبہ حادثات میں دھماکہ ہوا تھا اس وقت ڈاکٹر اور نرسیں غائب تھیں۔ میں ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے وہاں مدد کیلئے گئی تھی، اس دوران انکوائری جج نے پوچھا کہ آٹھ اگست کے دھماکے کے بعد آپ کے دیگر ساتھی کہاں تھے جس پر ان کا جواب تھا کہ انہیں ہدایات نہیں ملی تھیں، ان میں ترغیب نہیں تھی، اس کیلئے تربیت کی فراہمی بھی ضروری ہے۔