ورکرز کو لیڈر کیلئے آپس میں لڑنا نہیں چاہئیے
سپریم کورٹ کے باہر تحریک انصاف کے نعیم الحق اور عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈاپور میں جھگڑا ہو گیا۔ تلخ کلامی ہوئی اور پھر گالم گلوچ بھی ہوئی۔ اپنے لیڈر عمران خان کیلئے نعیم الحق نے ڈائس پر موجود لوگوں کو حکم دیا کہ جگہ خالی کریں۔ یہاں عمران خان بات کریں گے۔ اس پر عوامی تحریک کے خرم صاحب نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ شہنشاہ آ رہے ہیں۔ ہم تو ان کی رعایا ہیں مگر وہ آپ کے بادشاہ ہیں ہمارے نہیں ہیں۔ یہ بات خرم گنڈا پور نے کہی اور یہ بات کوئی گستاخی نہیں ہے۔یہ درست نہیں کہ بادشاہ کیلئے دوسرے لوگوں کو بھی رعایا بنایا جائے۔
عمران اگر بادشاہ ہیں پھر وہ کیوں آ ج کی حکومت کو بادشاہت کہتے ہیں۔ جب کہ حکمرانوں کے لوگ اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ یہ تو جمہوریت ہے نہ بادشاہت ہے۔ ملوکیت اور موروثیت کے درمیان کوئی فضا ہے جسے خاص لوگوں نے قبول کر لیا ہے۔
اس کے بعد نواز شریف پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ عمران کچھ کم نہیں ہیں ابھی وہ حکومت میں نہیں آئے پھر بھی حاکم ہےں۔ ان کا حاکمانہ رویہ پیدائشی ہے۔ اس رویے کو فطری نہیں کہا جا سکتا یہ فطرت کی توہین ہے۔ حکمران بھی اپنے لوگوں سے یہ سلوک نہیں کرتے۔
بنی گالا کے محل میں لوگ گپیں لگاتے رہے اور باہر لوگ پٹتے رہے۔ ہمیشہ لیڈروں کیلئے ورکرز مار کھاتے ہیں۔ مگر اب تو لیڈر آقا بن گئے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اپنے اپنے لیڈر کیلئے ایک دوسرے سے کیوں لڑتے ہیں۔ ان کیلئے نعرے لگاتے ہیں۔ نعرے بازی کے بعد مقابلہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔ نعیم الحق اور خرم گنڈا پور بذات خود نام والے لوگ ہیں۔ انہیں اس طرح لڑائی نہیں کرنا چاہئیے تھی۔ نعیم الحق اور خرم نواز گنڈا پور کے درمیان تلخی بہت افسوسناک ہے۔ مجھے تحریک انصاف کی خاموش اور غیور خاتون ثروت روبینہ نے بتایا کہ نعیم الحق ایک درویش آدمی ہیں۔ کمٹمنٹ کے بہت سخت ہیں۔ مگر کمٹمنٹ مقصد کاز کے ساتھ ہونا چاہئیے۔ شخصیت کے ساتھ نہیں ہونا چاہئیے۔
عمران جب آ جاتے تو جگہ بھی بن جاتی۔ لوگ لیڈروں کا احترام کرتے ہیں۔ نعیم صاحب نے پہلے ہی ایک مودبانہ فضاءبنانے کی کوشش کی۔ مجھے یقین ہے کہ خرم نواز گنڈا پور کے ساتھ سلیقے طریقے کے ساتھ بات کی جاتی تو وہ بات مان جاتے۔ خرم نواز گنڈاپور خاندانی آدمی ہیں اور ایک مقام رکھتے ہیں۔ انہیں بہت عام آدمیوں کی طرح حکم نہیں دیا جا سکتا۔ عمران ایک سیاستدان ہے اور کچھ لوگوں کے لیڈر بھی ہیں۔ وہ بہت لوگوں کیلئے بہت اہم بھی ہونگے۔ مگر یہ اہمیت دوسروں پر تھوپنا ٹھیک نہیں ہے۔
مجھے نعیم الحق جیسے سنجیدہ اور نیک نام آدمی سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ عمران کیلئے اتنے جذباتی ہو جائیں گے نعیم الحق کے اس رویے کی عمران خان کو پرواہ بھی نہیں ہو گی۔ وہ اپنے لوگوں اور دوسرے لوگوں کی پرواہ کرنے والے آدمی نہیں ۔ وہ اپنے دل کے مطابق چلتے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے قائل ہےں دوسروں کا خیال کرنا ان کی کتاب میں لکھا ہوا نہیں ہے۔ انہیں یقین ہے کہ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ عمران سے عزت کے امیدوار بھی نہیں ہیں۔ عمران کسی کی عزت کرتے بھی نہیں ۔ نعیم الحق کو اس معاملے میں خرم نواز گنڈا پور سے الجھنا نہیں چاہئیے تھا۔ اس طرح وہ عمران کے دل میں کوئی جگہ نہیں بنا پائیں گے ۔
عمران حکمرانوں کی کرپشن اور تکبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ عمران وزیراعظم بن گئے تو لوگوں کو شاید کوئی سہولت مل پائے مگر انہیں عزت بھی ملے گی تو بات بنے گی۔ حکمران کی ایک فطرت ہوتی ہے۔ وہ کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ جو آدمی مقبول ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنے اندر ایک حکمران ہی ہوتا ہے اور کبھی اپنی اس فطرت سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ تحریک انصاف کے لوگ بھی عمران کو حکمران سے کم نہیں سمجھتے۔ ہمارے لوگ انصاف کے انتظار میں بڑی بڑی بے انصافی برداشت کر چکے ہیں۔
رسالہ حجاز
حجاز ہسپتال ایک فلاحی ادارہ ہے جہاں غریب مریضوں کی بڑی تعداد داخل ہوتی ہے۔ کئی دنوں تک ان کا علاج ہوتا ہے روزانہ سینکڑوں مریض علاج کیلئے آتے ہیں اور شفایاب ہو کر جاتے ہیں۔ اس کے بانی انعام الہٰی اثر ہیں اور اس کے رسالے کی مدیر اعلیٰ مسرت قیوم ہیں۔ مسرت قیوم ہمارے اخبار نوائے وقت کی کالم نگار بھی ہیں۔
حجاز صرف مریضوں کا رسالہ نہیں اس میں ادیبوں اور عام لوگوں کی دلچسپی کی خبریں بھی موجود ہوتی ہیں ۔ نیم گرم پانی کے استعمال کے حوالے سے ایک تحریر اتنی خوبصورت ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد میرا دل چاہتا ہے کہ ہمیشہ نیم گرم پانی استعمال کروں۔ ٹھنڈا پانی بھی اللہ کی نعمت ہے۔ مگر نیم گرم پانی کی خصوصیات پڑھ کر حیرت ہوئی ۔ ایک تحریر ہم سنبھل کر چلتے رہے۔ زندگی کی دشوار راہوں پر سنبھل کر چلنے کی ہدایت سب سے اہم ہے مگر یوں بھی عام طور پر آدمی کو سنبھل کر چلنا چاہئیے۔