چیئرمین قائمہ کمیٹی نے ووٹ ڈال کر اپوزیشن کا پامانہ لیکس بل منظور نہ ہونے دیا، پارلیمنٹ کے باہر دھرنا
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ + آئی این پی) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں پانامہ لیکس پر اپوزیشن کے بل پر اتفاق نہ ہو سکا اور بل میں ترمیم کا مطالبہ منظور نہ ہونے پر اپوزیشن نے اجلاس کے بعد احتجاجی دھرنا دیدیا۔ کمیٹی میں 2 گھنٹے بحث کے بعد کوئی نتیجہ نہ نکلنے پر رائے شماری کے دوران اپوزیشن اور حکومت کے درمیان 4، 4 ووٹوں سے معاملہ ٹائی ہوگیا تو چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے اپنا ووٹ دیکر اپوزیشن کا بل منظور نہ ہونے دیا۔ ایم کیو ایم نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا اور یوں اپوزیشن تقسیم ہو گئی۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق تحریک انصاف کے ارکان اجلاس سے غیر حاضر رہے جبکہ اجلاس میں متحدہ اپوزیشن نے سوال اٹھایا، وزیراعظم نے اپنے اور اپنے خاندان کے احتساب کیلئے جو پوزیشن سپریم کورٹ میں اختیار کی ایسا پارلیمنٹ میں کیوں نہیں کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش کیا گیا پانامہ لیکس کی تحقیقات کا بل منظور نہ ہوسکا۔ قائمہ کمیٹی میں پانامہ پیپرز کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے گئے بل کا شق وار جائزہ لیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ایک شق میں ترمیم کرانا چاہی تو وزیر قانون زاہد حامد نے مخالفت کردی۔ زاہد حامد نے کہا ترمیم پہلے ہمیں دی جائے پھر اس کا جائزہ لیا جائے گا، جس پر اعتزاز احسن نے کہا ہم صرف ایک ترمیم کیلئے تجویز پیش کررہے ہیں کہ 'پانامہ کی بجائے تمام آف شور کمپنیوں کو شامل کیا جائے۔ دونوں جانب سے گرما گرم بحث کے بعد کمیٹی نے اپوزیشن کے بل میں ترمیم کا معاملے رائے کیلئے چیئرمین سینٹ کے سپرد کر دیا۔ اس موقع پر اعتزاز احسن نے کہا حکومت احتساب سے بھاگ رہی ہے، جس پر زاہد حامد نے انھیں مخاطب کیا اور بھاگنے کا لفظ استعمال کرنے سے منع کیا۔ بل منظور نہ ہونے پر اپوزیشن ارکان نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی دھرنا دیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔ اپوزیشن ارکان نے راہ فرار نہ منظور، نہ منظور، پانامہ شریف نامنظور، بھاگ گیا، بھاگ گیا نواز شریف بھاگ گیا کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن ارکان نے کہا حکومت بل کے حوالے سے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے، جس کا مقصد احتساب سے بھاگنا ہے۔ احتجاجی دھرنے میں پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن، تاج حیدر، فرحت اللہ بابر، شیریں رحمٰن، رحمٰن ملک، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بیرسٹر فروغ نسیم اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے شاہی سید سمیت دیگر شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے حکومتی انکوائری کمشن 2016 کے قانون کو یکسر مسترد کردیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے کیا اب قانون کی ضرورت ہے جس پر سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا معاملہ کورٹ میں ہے مگر قانون سازی نہیں رک سکتی اور پارلیمنٹ بازو توڑ کر عدالت کو نہیں دے سکتی۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا پارلیمنٹ نے اپنا کام نہیں کیا اور ٹی او آر بنانے کا کام عدالت کو دیا گیا ہے ہم لڑتے رہے تو تیسری قوت آ جاتی ہے۔ اجلاس میں تلخ کلامی ہو گئی اور وزیر قانون زاہد حامد نے اعتزاز احسن کے بل کی شق وار منظوری رکوا دی۔ انہوں نے کہا اپوزیشن کوئی ترمیم چاہتی ہے تو نئے نام کے ساتھ نئی ترمیم لائے۔ ذرائع کے مطابق وزیر قانون انصاف کی اعتزاز احسن سے تلخ کلامی ہو گئی۔ اعتزاز احسن نے کہا ہمارے بل میں صرف وزیراعظم کے احتساب کی بات نہیں کی گئی حکومت اپوزیشن کے بل سے بھاگ رہی ہے جس پر وزیر قانون نے کہا ہم نہیں بھاگ رہے تاہم بل میں کوئی تبدیلی ہے تو بل دوبارہ لایا جائے۔ احتجاج میں مختلف جماعتوں کے 35 سے 40 سینیٹرز نے شرکت کی۔ احتجاج کی قیادت اعتزاز احسن نے کی۔ اپوزیشن ارکان نے کہا حکومت پانامہ بل سے جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔ حکومت احتساب اور پانامہ بل سے بھاگ رہی ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہائوس کو ناکام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے دانستہ بل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ زاہد حامد نے میڈیا کو بتایا اپوزیشن اپنے ہی پہلے بل میں ترمیم کرنا چاہ رہی تھی میں نے اعتراض کیا قواعد کے مطابق اپوزیشن کو نیا بل لانا چاہئے قبل ازیں اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی تحقیقات وزیراعظم کے گرد گھومتی ہیں بہتر ہوگا حکومت پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن کے بل کی حمایت کرے۔ مسلم لیگ ن کے نہال ہاشمی نے کہا مجھے اپوزیشن کے بل کی کاپی ہی نہیں ملی، پڑھنے کیلئے وقت دیا جائے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کسی ایک شخص کا احتساب وقت اور قوم کی ضرورت نہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا اپوزیشن کا بل براہ راست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اپوزیشن جیسا احتساب چاہتی ہے وہ سپریم کورٹ میں شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ معاملہ خالصتاً عدالت میں ہے۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا اپوزیشن کے بل میں صرف ایک شخص کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں فریقین معاملے پر بحث سے اجتناب کریں۔ تاج حیدر نے کہا سپریم کورٹ نے کہا احتساب کا عمل وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ سے شروع ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں پیغام جائے پارلیمنٹ کام کر رہی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے بل کی سینٹ اور قومی اسمبلی میں حمایت کرے۔