رائے منصب علی اور پروفیسر صدیق شاہد مرزا کی بے مثال رفاقت
اپنی بیٹی کو ملنے جب کبھی شیخوپورہ جاتا ہوں تو پروفیسر صدیق شاہد مرزا سے بھی ملاقات کر کے آتا ہوں۔ پروفیسر صاحب معروف، شاعر، ادیب، نقاد، محقق اور ماہر تعلیم ہیں۔ شعر و ادب کے علاوہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ مختلف کالجوں میں پڑھانے کے بعد بالآخر 1993ءمیں گورنمنٹ کالج سانگلہ ہل سے ریٹائر ہوئے۔ صدیق شاہد مرزا ماشاءاللہ 83 برس کے ہو چکے ہیں، اسکے باوصف تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ علالت کے باعث ادبی سرگرمیاں موقوف ہیں۔ انکے اردو شعری مجموعے، نعتیہ مجموعہ، خاکے اور خود نوشت، ”میں ہوں اپنی شکست کی آواز“ شائع ہو چکی ہیں۔ صدیق شاہد مرزا پکے مسلم لیگی ہیں۔ ان کا شمار جناب مجید نظامی کے مداحین میں ہوتا ہے۔ اخبارات میں صرف ”نوائے وقت“ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ رائے منصب علی خاں پرائمری سکول سے لے کر ہائی سکول تک ان کے کلاس فیلو رہے۔ یہ تعلقات رائے منصب کی وفات تک قائم رہے۔ زندگی کی طویل راہوں پر ہم سفری ایک عہد کا قصہ ہے۔ ان دونوں کی محبت بڑھتے بڑھتے ان راہوں پر لے آئی جہاں ہم قدمی ایک نعمت بن گئی۔ خط کتابت کا آغاز ہوا جو رائے صاحب نے آخر دم تک جاری رکھا۔ نظریاتی حوالے سے بھی دونوں میں ہم آہنگی رہی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رائے منصب علی خاں سیاست کی طرف اور صدیق شاہد مرزا تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ پروفیسر صدیق شاہد مرزا نے اپنے بچپن سے لے کر آخر دم تک عزیز دوست رائے منصب علی خاں کے مکاتیب کتابی صورت میں شائع کر دئیے ہیں۔ کتاب کا نام ”خطوں کی خوشبو“ رکھا گیا۔ جس میں رائے صاحب مرحوم کے 191 خطوط شامل ہیں۔ ان کی تحریر کا عرصہ کم و بیش چونسٹھ برس (1950ءتا 2014ئ) پر محیط ہے۔ پروفیسر صدیق شاہد لکھتے ہیں ”میرے اور رائے منصب علی کے درمیان کمال کی بے تکلفی تھی۔ دوستی میں انتہائی گہرائی، سچائی، خلوص اور دلی وابستگی کا رنگ تھا۔ ہمارے مستقبل کے خواب بہتر ترتیب پاتے تھے۔ نویں دسویں جماعتوں میں جب جسمانی طور پر کسی شمار میں آنے لگے تو ہمیں ورزش کرنے کا شوق چرایا۔ جسم پر سرسوں کا تیل کی مالش کرتے اور کچھ وقت تک تو ریلوے لائن کے پار جا کر لنگر لنگوٹا باندھ کر کشتی لڑا کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ کشتی کے داو¿ پیچ سمجھنے کیلئے کسی استاد پہلوان کا سہارا نہ لیا“ ۔ 1947ءمیں صدیق شاہد مرزا نے مڈل پاس کیا۔ یہی سال قیام پاکستان کا بھی ہے۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کا اصل نام صدیق علی مرزا ہے۔ پروفیسر صدیق شاہد مسلسل جدوجہد اور اسکے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامرانی کی علامت ہیں۔ انہوں نے کامیاب انسان کے طور پر زندگی گزاری اور گزار رہے ہیں۔ اعلیٰ اقدار کے امین استاد کے طور پر بے شمار شاگردوں کی صورت میں نئی زندگی کی بنیادیں رکھیں۔ صدیق شاہد آداب و روایات کے امین افراد کے مختصر گروہ میں شامل ہیں۔ دھیما لہجہ ، شائستگی، کم گوئی، تہذیب اور مہر و وفا کی تپش انکی شخصیت کی پہچان ہے۔ ڈاکٹر خالق تنویر نے صدیق شاہد کی شاعری کو موضوع اور اسلوب کے توازن کی بلیغ مثال قرار دیا ہے۔ کلاسیکی موضوعات کو برتنے کا سلیقہ فن پر گرفت کا ثبوت ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ عصری تقاضوں سے بے نیاز ہیں۔ انکی شاعری انکی شخصیت کی طرح سادگی، بے ساختہ پن، کلاسیکیت اور جدت کے امتزاج کا دل آویز نمونہ ہے۔ پروفیسر صدیق شاہد مرزا سے میرا تعارف رائے منصب علی خاں نے کرایا۔ جب 2002ءمیں گورنمنٹ گورونانک کالج ننکانہ صاحب میں میرے شعری مجموعے ”جیون لنگھیا پباں بھار“ کی تعارفی تقریب تھی جس کا اہتمام رائے منصب علی خاں نے کیا تھا۔ پروفیسر صدیق شاہد صاحب نے بھی اس تقریب میں خصوصی شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔ پروفیسر صاحب گورنمنٹ گورونانک کالج میں پرنسپل رہ چکے ہیں اس لیے مذکورہ تقریب میں آ کر انکی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ تقریب کے اختتام پر رائے صاحب مجھے اور پروفیسر صدیق شاہد کو اپنے دولت خانے پر لے گئے جہاں ہم نے رات کا کھانا کھایا۔ رائے منصب علی خاں نے ہمارے لیے ایک گاڑی کا بندوبست کر دیا۔ شیخوپورہ تک پروفیسر صدیق شاہد مرزا کا ساتھ رہا۔ اسکے بعد راجا رسالو اور راقم لاہور کیلئے روانہ ہو گئے۔ لاہور سے شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کا یہ سفر یادگار رہا۔ پچھلے ہفتے پروفیسر صدیق شاہد مرزا کی عیادت کیلئے میں شیخوپورہ گیا تو انہوں نے مجھے اپنا تازہ پنجابی کلام سنایا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تاخیر سے ہی سہی، پروفیسر صاحب پنجابی کی طرف آئے تو۔ ان کا ایک پنجابی شعر ملاحظہ کریں۔
کِنّے سال ای انج حیاتی دے بیتے
کیہ ساڈا سی جینا تے کیہ ساڈا مرنا