مرنجاں مرنج شاعر اسلم کولسری اللہ کو پیارے ہو گئے
1987ءکا زمانہ بہت سی یادیں لئے آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ معروف شاعر ازہر درانی حیات تھے۔ مین بازار صدر چھاﺅنی کے قریب ازہر درانی صاحب کا گھر تھا۔ ہم ان کے ہاں جاتے۔ ادب پر گفتگو ہوتی۔ چائے کے کئی دور چلتے۔ صدر کچہری کے ملحقہ بازار میں سعید مقصود صاحب (شاعر و آرٹسٹ) کا ڈیرہ تھا۔ بعد ازاں سعید مقصود ایم اے اردو کر کے ایچی سن کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہو گئے۔ ازہر درانی اور دیگر شاعر ادیب دوست سعید مقصود کے ڈیرے پر آ جاتے۔ یہاں ایک دوسرے سے غزلیں نظمیں سنی جاتیں اور چائے کے دور یہاں بھی چلتے۔ انہی دنوں اردو غزل کے مشہور شاعر اور مترجم شہزاد احمد شہزاد سے بھی ملاقات ہوئی۔ شہزاد احمد اتنے شفیق اور خوش اخلاق، شخصیت تھے کہ جو انہیں ایک بار مل لیتا، وہ عمر بھر کے لئے ان کی شخصیت کا اسیر ہو جاتا۔ شہزاد احمد اتنے کشادہ دل انسان تھے کہ ہم جب بھی ان کے گھر گئے، انہوں نے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا وہ بہت مہمان نواز تھے۔ انہوں نے کبھی یہ قدغن نہ لگائی کہ فلاں وقت میرے لکھنے کھانے کا وقت ہے، مت آنا۔ ہم تو اکثر اسی وقت جاتے تھے، جب وہ کسی اہم کتاب کا ترجمہ کر رہے ہوتے تھے۔ شہزاد صاحب کام چھوڑ دیتے اور پرتکلف چائے پر گپ شپ کرتے۔ اسی دور میں ایک دن ہم اردو سائنس بورڈ میں گئے۔ ہماری ملاقات اسلم کولسری صاحب سے ہوئی۔ شاہ جی (سعد اللہ شاہ) ساتھ تھے۔ کہنے لگے۔ ”کولسری صاحب! اپنے کلام سے نوازے۔ پہلے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کچھ عذر کیا۔ شاہ جی چونکہ خود شاعر تھے۔ اس لئے وہ انہیں اپنی غزل سنانا چاہتے تھے۔ اصرار کرنے لگے تو کولسری صاحب نے اپنی مشہور غزل سنائی، جس کا ایک شعر اب بھی حافظے میں موجود ہے۔
یعنی ترتیب کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے
اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے
اس ایک ملاقات نے ان کے ساتھ ملاقاتوں کے ان گنت دروازے کھول دیئے۔ ہم کالج سے فارغ ہوتے تو اردو سائنس بورڈ چلے جاتے۔ بڑوں کا ادب کرتے تو ہم نے انہیں دیکھا لیکن وہ اپنے سے چھوٹوں کا ادب کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ مولانا حالی تھے۔ ایک دفعہ ہم نے خالد شریف صاحب (ماورا کے چیف ایگزیکٹو) سے کہا کہ اسلم کولسری صاحب بہت زبردست شاعر ہیں۔ آپ ان کی کتابیں ضرور شائع کریں۔ کہنے لگے۔ کسی روز ملوائیں۔ کتابیں ضرور شائع کروں گا۔
بہرحال ایک دن شاہ جی نے اسلم کولسری صاحب کا ایک شعر ”مکتبہ تعمیر انسانیت اردو بازار، لاہور کے مالک و پبلشر کو سنا دیا۔
شہر میں پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
شیخ سعید اللہ صدیق صاحب شعر سن کر پھڑک اٹھے۔ کہنے لگے اسلم کولسری کی کتابیں میں شائع کروں گا۔ یہ وہ دور تھا کہ مکتبہ تعمیر انسانیت ادیبوں شاعروں کا ٹی ہاﺅس بن گیا تھا۔ اسلم کولسری صاحب کی کتابیں شائع ہونا شروع ہوئیں۔ ٹائٹل بنتا تو ہم سب دوست ٹائٹل پر اپنی اپنی رائے دیتے اور پھر ٹائٹل پاس ہو جاتا۔ اس طرح ان کے یکے بعد دیگرے کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ چند روز قبل معروف کالم نگار صہیب مرغوب صاحب اور معروف صحافی جناب رﺅف ظفر صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اسلم کولسری اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ بے حد افسوس ہوا۔ اسلم کولسری مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ تقریبات میں بہت کم شرکت کرتے تھے۔ اردو بازار میں بھی ہم نے انہیں کبھی نہ دیکھا۔ البتہ جناب عطاءالحق قاسمی صاحب کے دفتر میں وہ گا ہے گا ہے تشریف لاتے۔ بہرحال یہ کریڈٹ عطاءالحق قاسمی صاحب کو جاتا ہے کہ انہوں نے اسلم کولسری صاحب کو انٹرنیشنل مشاعروں اور تقریبات میں مدعو کیا۔ لیکن بقول قاسمی صاحب، اسلم کولسری صاحب جہاز میں سفر کرنے سے پہلے کھانسنا شروع کر دیتے تھے یعنی خوف محسوس کرتے تھے، چند ماہ قبل محترم ظفر علی راجا صاحب کے ساتھ اسلم کولسری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ مسکرائے ہوئے ملے۔ ان کے ساتھ چائے پی اور گپ شپ کی۔ اب معلوم ہو رہا ہے کہ وہ چند ماہ سے علیل تھے۔ سانس کی تکلیف تھی۔ انہوں نے شاید منع کر رکھا تھا کہ ان کی علالت کی خبر شائع نہ ہو۔ اچھے انسانوں کا دنیا سے رخصت ہونا بہت تکلیف دیتا ہے۔ اسلم کولسری کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے اہل خانہ اور دوست احباب کو صبر جمیل سے نوازے (امین) چند روز قبل مشہر رسالے ”تارکین وطن“ کے چیف ایگزیکٹو جناب میاں منظور احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ انتقال فرما گئی تھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ میاں منظور احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے (آمین) میاں منظور صاحب کے بیٹے بہت نیک اور فرماں بردار ہیں میاں صاحب کے بیٹوں سے مل کر یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی ان کی والدہ محترمہ نے ان کی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ میاں منظور صاحب اور ان کے بیٹے بیٹیوں اور ان کے عزیز و اقارب کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت اور صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)۔