محمود علی .... عظیم محب ِوطن رہنما
جدوجہد آزادی میں 1946ئ کے انتخابات سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تاریخی انتخابات میں بنگالی مسلمانوں نے 97 فیصد ووٹ دے کر پاکستان کا حصول ممکن بنایا۔ اس عظیم جدوجہد میں جن شخصیتوں نے کلیدی کردار ادا کیا ان کی صف اول میں جناب محمود علی کا شمار ہوتا ہے۔ جو تحریکِ پاکستان کے متحرک رہنما اور قائداعظم? کے سپاہی تھے۔ دس سال پہلے وہ مالک حقیقی سے جاملے لیکن انہیں مرحوم کہنے کو دل نہیں مانتانہ ہی قلم سے الفاظ نکل رہے ہیں۔ وہ وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں جدوجہد آزادی سے قیامِ پاکستان تک اور اس کے بعد استحکامِ پاکستان کے لئے قومی کوششوں میں نظریاتی وفاداری اور غیر متزلزل عزم وعمل کا روشن مینار ہیں۔ محمود علی بنیاد پرست انقلابی پاکستانی اور درویش سیاست دان تھے۔ جنہوں نے دو قومی نظریہ میں اپنے ایمان کو آخری دم تک قول اور فعل سے ثابت کیا۔
جب 1971ئ میں ننگی جارحیت کے ذریعے بھارت نے مشرقی پاکستان کو زبردستی ہم سے الگ کیا تو محمود علی نے اپنے ہی وطن میں ہجرت کی اور مرتے دم تک دو قومی نظریہ کے علمبردار اور افکار قائداعظم? کے نقیب رہے ان کے انتقال پر جنرل (ر) حمید گل نے کہا تھا کہ ملک دو لخت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ نظریۂ یا خیال بھی تقسیم ہوگیا۔ قائداعظم? کی قوم دراصل تین مملکتوں پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اس لئے دو قومی نظریہ نہ تو ختم ہوا ہے اور نہ ہی خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے بلکہ یہ عالمگیر حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ محمود علی اسی عظیم تر پاکستان کے علمبردار تھے جس میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک طاقت بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے 1985ئ میں تحریکِ تکمیلِ پاکستان کی بنیاد رکھی اور زندگی کی آخری سانس تک ملک کے قریہ قریہ میں اس کے مقاصد کے فروغ کے لئے سرگرم عمل رہے۔ 17 نومبر 2006ئ کو جب لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا انتقال ہوا تو ان کے آخری الفاظ ’’کشمیر پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے‘‘ تھے۔
1953ئ میں حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کا متحدہ محاذ بنا۔ گنا تنتری دل بھی اس میں شامل ہوگی۔ محمود علی نے 1954ئ میں متحدہ محاذ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا ور اپنے علاقے سنام گنج سے مشرقی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ جناب اے۔ کے۔ فضل الحق کی وزارت قائم ہوئے صرف 87 دن گزرے تھے کہ مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کردیا اور صوبائی وزارت کو بلا جوانہ برطرف کردیا گیا۔ کئی ہزار کارکنوں اور معروف رہنما?ں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ محمود علی اْن کی اہلیہ، بچوں اور کئی دوسرے اہلِ خانہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ چھے مہینے بعد اْن کی اہلیہ اور بچوں کو رہا کردیا گیا۔ تاہم انہیں چودہ مہینے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔ اْن کی رہائی کے فوراً بعد گورنر جنرل غلام محمد نے دوسری دستور ساز اسمبلی تشکیل دی۔ محمود علی 1955ئ میں اس دستور ساز اسمبلی کے رْکن منتخب ہوگئے۔ جب آئین سازی کا کام جاری تھا۔ انہیں نومبر 1955ئ میں ایک بار پھر سیفٹی ایکٹ کے تحت کراچی جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں سے انہیں ڈھاکہ سنٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ جہاں وہ 3 جنوری 1956ئ تک زیرِ حراست رہے۔ ستمبر 1956ئ میں ان سے کہا گیا کہ وہ مشرقی پاکستان عوامی لیگ اور گنا تنتری دل کی مخلوط کابینہ میں شامل ہو جائیں۔ انہیں ریونیو اور جیل خانہ جات کی وزارت ملی۔ وہ کچھ عرصہ کے لئے عارضی طور پر تعلیم پبلک ہیلتھ، زراعت، ایکسائز اور امداد باہمی کے محکموں کے بھی وزیر رہے۔ اپنے دور وزارت کے دوران انہوں نے زمینی اصلاحات سے متعلق ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس کی سفارشات کے اطلاق کا آغاز اپنی ذات سے کیا۔ 29 جنوری 1957ئ کو وہ کابینہ میں اختلاف کی بنا پر مستعفی ہوگئے۔ اسی روز پورے ملک سے جمہوریت نواز کارکنوں اور رہنما?ں کا ایک کنوینشن ڈھاکہ میں ہوا۔ تاکہ پاکستان گنا تنتری دل کی طرح وسیع بنیادوں پر ایک جمہوری پارٹی تشکیل دی جاسکے۔ گنا تنتری دل اس نئی جماعت میں ضم ہوگئی اور محمود علی نئی جماعت کی مشرقی پاکستان شاخ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1971ئ میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں نئی حکومت برسراقتدار آئی تو محمود علی کو صدر کا مشیر برائے سیاسی امور کا مقرر کیا گیا۔ بعد میں وہ قومی امور‘ بیرون ملک پاکستانیوں کے امور اور جیل خانہ جات کے وزیر مملکت مقرر ہوئے۔ دسمبر1974ئ میں انہیں قومی کونسل برائے سماجی بہبود کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا۔5 جولائی 1977ئ کو تیسرا مارشل لائ نافذ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں صدر مملکت کا مشیر برائے شہری امور‘ ہاوسنگ‘ اینڈ ورکس مقرر کر دیاگیا۔ تاہم چیئرمین قومی کونسل برائے سماجی بہبود کا عہدہ مسلسل اْن کے پاس رہا۔ جب جولائی 1978ئ میں نئی کابینہ بنی تو انہیں صحت‘ سماجی بہبود اور آبادی کی منصوبہ بندی کے محکمے دے دیئے گئے۔ بعدازاں وہ 1993ئ تک وفاقی وزیر اور سماجی بہبود کی قومی کونسل کے چیئرمین رہے۔ اس کے بعد وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر وفات تک فائز رہے۔
محمود علی اسلامی سیاسی اور نظریاتی اتحاد میں یقین رکھتے تھے اور ایک ایسے سیاسی ڈھانچہ کے داعی تھے۔ جس سے ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں کے ساتھ منصفانہ سلوک ہوسکے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان جیسے پسماندہ اور غربت کے مارے ملک میں ایسا اقتصادی نظام ہونا چاہئے جس سے ہر شخص کو کم از کم انسانی معیار کے مطابق زندگی گزارنے اور ایک آزاد ملک کے آزاد شہری کی حیثیت سے کام کرنے کا موقعہ مل سکے۔ اس مقصد کے لئے سرمایہ دارانہ ذہنیت کو قابو میں لایا جائے اور صنعتی ترقی کے لئے نجی اداروں کو ضروری مواقع فراہم کئے جائیں۔
محمود علی کہتے تھے کہ پاکستان باوقار عمل سے حاصل ہوا تھا‘ اس ملک اور اس ملک کے عوام کو باوقار کردار کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسروں پر انحصار ختم کیا جائے۔ اپنی مدد آپ کی جائے۔ اس طرح نہ صرف عام آدمی براہِ راست امورمملکت میں شریک ہوتا ہے بلکہ عوامی فلاح کے ان منصوبوں کی ایک بڑی تعداد جلد پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتی ہے۔ جن پر عمل درآمد کے لئے سرکاری منصوبہ بندی میں کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ محمود علی کہتے تھے کہ خود کفالت کو مشن بنایا جائے اور قوم اس مشن کو جلد سے جلد پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
محمود علی پاکستان کے اْن عظیم سپوتوں میں سے ایک تھے جن کے لئے مادرِ وطن کا تقدس اور استحکام ہی سب کچھ تھا۔ وہ متحدہ پاکستان کے داعی تھے اور قرارداد لاہور کی تکمیل کے لئے ساری زندگی سرگرم عمل رہے۔ پاکستان کی عظمت‘ پاکستان کی ترقی‘ یہی ان کا سرمایۂ فکر وعمل تھا اور اسی سے ان کی زندگی عبارت رہی۔ وہ اپنی قسم کے واحد پاکستانی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت سے زندہ رہنا اور مسلسل جدوجہد کرنا سکھایا اور وہ انگریز کی عیاری‘ ہندو کی اصول شکنی‘ دوست نما دشمنوں اور قدیم نظریاتی دشمنوں کے کردار سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ ایسے لوگ مرا نہیں کرتے وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔