• news
  • image

سی پیک اور بیگم کلثوم نواز کی چھٹی حس!

2007ءمیں عمرے کی سعادت نصیب ہوئی، کیپٹن صفدر کو فون کیا مکہ معظمہ میں ہوں، انہوں نے کہا ملاقات لازمی ہونی چاہئیے ان کا ڈرائیور مجھے جدہ لے گیا عزیزی مریم اور کیپٹن صفدر کی موجودگی میں بیگم کلثوم نواز سے ان کی سیاسی جدوجہد کی یادیں تازہ کرنے سمیت بہت سے موضوعات پر گپ شپ رہی چھ گھنٹے سے زائد اس نشست میں اثنائے گفتگو بیگم کلثوم نواز نے کہا ”میں نہیں جانتی کیا، مگر مجھے لگتا ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے“ مریم، کیپٹن صفدر اور اس ناچیز نے قیاس کے گھوڑے دوڑائے مگر بیگم صاحبہ کے اس نامکمل ادراک کی تہہ تک نہ پہنچ سکے نو سال بعد جب وزیراعظم نواز شریف اتوار کے روز گوادر بندرگاہ کا باقاعدہ افتتاح کر رہے تھے تو میرے ذہن میں بیگم کلثوم نواز کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ”اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے“ پیارے پاکستان کی سلامتی کے ضامن ایٹمی پروگرام کی تکمیل کا سہرا نواز شریف کے سر بندھا ایٹمی دھماکوں نے پاکستان کو یقینی سلامتی کا دفاعی ہتھیار فراہم کر دیا اور گواد سے پہلے برآمدی تجارتی سامان کی مشرق وسطیٰ اور افریقہ کیلئے روانگی ایٹمی دھماکوں جیسا ہی بڑا معاشی دھماکہ ہے بیگم کلثوم نواز کی چھٹی حس جسے محسوس کر رہی تھی ادراک کے دائرے میں نہیں آ رہا تھا بلاشبہ یہ پیارے پاکستان کیلئے تاریخ ساز لمحہ ہے پاکستان کو اس لمحہ تک پہنچنے کیلئے کیسی کیسی اندرونی و بیرونی مخالفتوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑا اس مبارک سفر کو کھوٹا کرنے کیلئے کتنے پاکستانی اور چینی دوستوں کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیئے مگر بالآخر اس سفر نے کامیابی کی پہلی منزل تک پہنچنے کی سرخروئی حاصل کر لی گوادر پورٹ بلاشبہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم تحفہ ہے اور تاریخی اعتبار سے ایسا سنگ میل جسے عبور کر کے پاکستان بین الاقوامی سطح پر تعلقات کے نئے دور میں داخل ہو گیا ہے میں سوچ رہا ہوں تمام تر بشری کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود نواز شریف میں کچھ تو ایسا ہے کہ ایٹمی دھماکے کے بعد اس عظیم معاشی دھماکہ کا اعزاز بھی ان کا مقدر بنا ہے۔پاکستان کے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے جب 1957ءمیں گوادر کو مسقط کے سلطان سے خرید کر پاکستان کا حصہ بنایا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ 59 سال بعد ان کے نام کے سابقے (ن) سے شہرت پانے والی سیاسی جماعت (ن) لیگ کے دور حکومت میں گوادر پیارے پاکستان کی ایسی بندرگاہ کی حیثیت حاصل کرے گی کہ اس ملک کی نسلوں کی معاشی تاریخ بدل کر رکھ دے گی تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں 1781ءمیں مسقط کے ایک شہزادے نے نامساعد حالات میں خان قلات کے پاس پناہ لی اور انہوں شہزادے کی گزر اوقات کیلئے گوادر کی سالانہ آمدنی جو زیادہ تر ماہی گیری اور آبی نقل و حرکت پر مشتمل تھی اس کے حوالے کر دی حالات سازگار ہوئے شہزادہ مسقط کا حکمران بن گیا لیکن گوادر پر قبضہ سے دست بردار نہیں ہوا یہاں تک 1839ءمیں انگریزوں نے اس پر قبضہ کر لیا 1861ءمیں قلات کے حکمران نے واپسی کا مطالبہ کیا جو نہیں مانا گیا قیام پاکستان کے بعد 1949ءمیں یہ مسئلہ اٹھایا گیا مگر مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ 1956ءمیں ملک فیروز خان نون وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے گوادر کو پاکستان میں انضمام کیلئے بات چیت شروع کی۔ 1957ءمیں جب وہ وزیراعظم بنے تو گوادر کی مسقط سے پاکستان کو منتقلی کیلئے معاوضہ کی ادائیگی کا سمجھوتہ ہوا اور ایک بڑی رقم ادا کی گئی تاہم اس خیال سے کہ سلطان مسقط کے جذبات مجروح نہ ہوں کوئی جشن منایا گیا نہ تشہیر کی گئی ملک فیروز خان نون کو گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کرنے پر جس چیز بلکہ سوچ نے آمادہ کیا وہ خود ان کے بقول ”گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا مجھے یوں محسوس ہوتا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی اسے کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتی ہے ”بعض روایات کے مطابق بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کواس واقع کا علم ہوا تو بہت تلملایا۔ تصور کیا جائے اگر ملک فیروز خان نون سے پہلے پنڈت نہرو کو یہ خیال آ جاتا تو بھارت کئی گنا زیادہ رقم دے کر گوادر پر قبضہ کر لیتا اور آج کیا صورتحال ہوتی ادھر پاکستان میں ملک فیروز خان پر تنقید ہوئی کہ پاکستان مالی و معاشی مشکلات کا شکار ہے ایک خطیر رقم ایسے ساحلی علاقہ کے لئے دی گئی جس کا کوئی خاص مصرف نہیں ہے جواب میں انہوں نے کہا ”جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ ہو وہاں پیسہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا“ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے جب بھارتی سرحد کے نزدیک بی آر بی نہر بنوائی تو ایسے ہی اعتراضات لگے تھے 1965ءکی جنگ نے اس نہر کی افادیت ثابت کر دی جو دفاعی حصار ثابت ہوئی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف نے جب موٹروے بنائی تو اعتراضات اور تنقید کے طوفان اٹھے آج وہی لوگ موٹروے کی افادیت کو تسلیم کرتے ہیں۔سی پیک منصوبے پر دشمنوں کے سینوں پر تو سانپ لوٹے اپنوں نے بھی روٹوں کو بنیاد بنا کر اس میں کھنڈت ڈالنے میں پورا حصہ لیا حتیٰ کہ پاکستان میں چین کے سفیر کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو خود جا کر وضاحت کرنی پڑی۔ بہرحال وزیراعظم نواز شریف کی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ منصوبہ پاکستان سمیت پورے خطے کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ ہے۔ سی پیک سے پاکستان پوری دنیا میں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائےگا۔ وزیراعظم نے بہت اہم بات کی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں۔ بلاشبہ اس عظیم منصوبے کے آغاز سے ہی اسکے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا تاہم حکومت اور بالخصوص پاک فوج کے عزم صمیم نے پہلے مرحلے کی کامیابی سے تکمیل کر دی ہے ابھی بہت سا کام باقی ہے گوادر سے پہلی برآمدی ترسیل سے دشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹے ہیں اسلئے اس منصوبے کے آخری مرحلے تک بہت زیادہ چوکسی کی ضرورت ہے اسکی حفاظت کیلئے باقاعدہ فورس تیار کرنا خوش آئند ہے۔ اس کی خفاظت کے تقاضے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت سے کم نہیں ہیں اس حساب سے دیکھا جائے تو افواج پاکستان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن