حکومت مردم شماری کی واضح تاریخ بتائے‘ فیصلوں پر عمل نہیں کرنا تو سپریم کورٹ بند کر دیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے مردم شماری نہ کرائے جانے پر آبزرویشن دی ہے کہ عدالت عظمیٰ گذشتہ سات برس سے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے کام کر رہی ہے۔ حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے یا سپریم کورٹ کو بند کر دے۔ اگر یہ عدالت لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتی تو پھر انصاف کے اس ادارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کو پانچ ماہ سے مردم شماری کروانے کا کہہ رہے ہیں لیکن کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ عدالت نے سیکرٹری محکمہ شماریات کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت وضاحت کرے کہ مردم شماری نہ کرانے پر کیوں نا سیکرٹری شماریات کو عہدے سے برطرف کر دیا جائے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ہمیں سن تو لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتی تو پھر انصاف کے اس ادارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آج اس جگہ ہم ہیں کل کوئی اور ہو گا۔ جسٹس امیر مسلم نے استفسار کیا کہ محکمہ شماریات کس وزارت کے ماتحت ہے تو بتایا گیا کہ یہ وزارت خزانہ کے ماتحت ہے اور وزارت خزانہ کے ماتحت پانچ شعبوں کی سربراہی 5 سیکرٹری کرتے ہیں جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ پھر سیکرٹری خزانہ کو طلب کر لیتے ہیں۔ مردم شماری آئینی ذمہ داری ہے لیکن 1998ء سے اب تک مردم شماری نہیں کروائی گئی۔ اس دوران سیکرٹری شماریات نے بتایا کہ انہوں نے مردم شماری کے حوالے سے متعدد اجلاس کئے ہیں لیکن مشترکہ مفادات کونسل نے کہا ہے کہ مردم شماری کے لئے 2لاکھ 86 ہزار فوجی جوانوں کی ضرورت ہے جن کی فراہمی ان حالات میں ممکن نہیں ہے جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور ہم پاکستانی شہری ہیں۔ بتائیے ملک کے کتنے علاقوں میں فوج کی ضرورت ہے۔ بتائیے کون سے ایسے علاقے ہیں جہاں شورش ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی طرف سے تیاریاں مکمل ہیں جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 18سال سے مردم شماری نہیں ہوئی اور عدالت کو تیاریوں کا بتایا جا رہا ہے۔ آئین پاکستان میں کہاں لکھا ہے کہ فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سول اداروں کی بات کر رہے ہیں۔ بتائیں کہ خدانخواستہ اگر زلزلہ یا کوئی ایمرجنسی آ جائے تو کیا حکومت نے صرف فوج کو ہی بلانا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ امریکہ، برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طرح کے حالات میں فوج کو طلب کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ نے ملک کے اندر امن وامان کی بحالی کے لئے فوج کو تعینات کر دیا ہے۔ پنجاب پولیس، سندھ پولیس موجود ہے۔ ہر دفعہ فوج اور رینجرز کو کیوں بلایا جاتا ہے۔ ملک کے دیگر اداروں کو بھی کام کرنا چاہئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوج بھی ملک کا ہی ایک ادارہ ہے جس پر عدالت نے تحریری حکم میں لکھا کہ 17 نومبر 2016ء کو جاری عدالتی حکم پر محکمہ شماریات نے رپورٹ جمع کرائی جو عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے مردم شماری2017 میں کرانے کی مشروط تاریخ مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں ہم انصاف نہیں دے سکتے تو اس ادارے کی کیا ضرورت ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا فوج کی عدم دستیابی کے باعث مردم شماری نہ ہو سکی تاہم آئندہ برس مارچ اور اپریل میں مردم شماری کرائی جاسکتی ہے۔ جسٹس امیر ہانی نے ریمارکس دیئے مردم شماری کرانا آئینی تقاضا ہے اس پر شرط نہیں لگائی جا سکتی۔ آبادی کے اعدادوشمار ہی معلوم نہیں۔ حکومت نے تاریخ فوج کی دستیابی سے مشروط کر دی ہے۔ مردم شماری کے لیے اس قسم کی یقین دہانی قابل قبول نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی دی گئی تحریر محض دکھاوا ہے۔ ہمیں واضح اور ایک تاریخ بتائیں۔ مردم شماری کا نہ ہونا موجودہ اور پچھلی حکومتوں کی ناکامی ہے۔ مردم شماری کرائی تو اسمبلیوں کی سیٹوں کو بڑھانا پڑے گا، لوگوں کو بیوقوف بنائیں نہ عوام کا پیسہ ضائع کریں، کہہ دیں کہ مردم شماری کرانا حکومت کے بس کا کام نہیں۔ مردم شماری نہیں کرانا تو ادارہ شماریات بند کردیں، کیوں نہ مردم شماری کے تاخیر کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ تمام کام فوج کو کرنے ہیں تو دیگر اداروں کی کیا ضرورت ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے مزید ریمارکس دیئے ہر بڑی سیاسی جماعت جمود کے حق میں ہے۔ عدالت نے مزید سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کردی۔