• news

عام شہری کی مشکلات دور کرنے کیلئے سب ادارے مشنری جدبہ سے کام کریں:چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

ملتان (سپیشل رپورٹر+ صباح نیوز+ این این آئی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کی 150 سالہ تقریبات کا مقصد تجدید عہد کرنا ہے کہ کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر بلاخوف و خطر آئین و قانون کی حکمرانی کو سر بلند کیا جائے گا ‘ ڈھال بن کر ایک عام آدمی کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی اور اسے انصاف فراہم کیا جائے گا۔ عدلیہ وطن عزیز کا سب سے مضبوط ادارہ ہے یہ کسی بھی فرد اور شخصیت سے بالاتر ہے، بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز اس ادارے کو مستحکم بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے 150 سالہ تقریبات کے سلسلے میں ہائیکورٹ ملتان بنچ میں منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ لاہور ہائیکورٹ کے سینئر جسٹس شاہد حمید ڈار، جسٹس سردار محمد شمیم خان، جسٹس محمد قاسم خان، جسٹس محمد کاظم رضا شمسی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد امیر بھٹی، جسٹس ملک شبیر احمد خان، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس سید شہباز علی رضوی، جسٹس قاضی محمد امین، جسٹس ملک خالد محمود، جسٹس چوہدری مشتاق احمد کے علاوہ ڈسٹرکٹ و ایڈیشنل سیشن ججز اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وکلاء کی ایک بہت بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ ہر ادارے کا وژن ہوتا ہے کہ اس نے مستقبل میں کیسے آگے بڑھنا ہے جس کیلئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جج کا کام انصاف مہیا کرنا ہے، ہر پہلو سے مقدمے کی تحقیق کرنی ہے اور انصاف پر مبنی فیصلہ سنانا ہے، اسی طرح بار کا کام ہے کہ قانون کی بہترین انداز سے تشریح کرے اور مئوثر دلائل پیش کرے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو مضبوط بنانے میں پنجاب بار کونسل کا بھی اہم کردار بنتا ہے اسکے علاوہ ڈسپلنری ایکشن لینے کے حوالے سے بھی بار کونسل کا کردار ہے تاکہ کورٹ رومز کا ماحول پر سکون رکھا جا سکے جو کہ فوری انصاف اور صحیح فیصلوں کیلئے ضروری ہے ۔ بار ایسوسی ایشنز کو مختلف مقدمات میںحامل مسائل کو دور کرنے میں اپنا کردار نبھانا چاہیے تاکہ کورٹ سسٹم کو کسی خلل کے بغیر چلایا جا سکے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بار ایسوسی ایشنز میں سیاست کو گھسیٹ لائے ہیں اور مقدمات کی پیروی اور انصاف کی فراہمی کا جو ہمارا بنیادی مقصد ہے اس کو بھلا دیا گیا ہے۔ جو کہ ہمیں بالکل زیب نہیں دیتا انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ عدلیہ کا سیاست سے کیا تعلق ہے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججز اور بار کا اپنا اپنا کردار ہے یہ ایک مقدس پیشہ ہے جس میں ایک مظلوم کو انصاف فراہم کرکے دعائیں سمیٹی جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ گئے تو ادارے کمزور ہو جائیں گے۔چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں لاہور ہائی کورٹ کا حصہ ہوں اور میں نے اس ادارے کو عزت و تکریم دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے اس حوالے سے ادارے میں مختلف ریفارمز لانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تاکہ بہترین نتائج سامنے آ سکیں۔ اس حوالے سے ٹیکنالوجی کی مدد لی جا رہی ہے۔ مقدمات کا آڈٹ سسٹم اور کیس منیجمنٹ سسٹم لارہے ہیں اور نئی تکنیک متعارف کرائی جا رہی ہیں تاکہ مقدمات کا جلد فیصلہ کیا جا سکے اور عام آدمی کو انصاف مل سکے۔ اگر ہم مقدمات کا جلد فیصلہ نہ کر سکے تو پھر اسے ہماری ناکامی سے تعبیر کیا جائے گا۔ لاہور ہائیکورٹ میں 10 کروڑ روپے کی لاگت سے اے ڈی آر سسٹم لایا جا رہا ہے اور مقدمات کا پورا انتظام کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شاہد حمید ڈار نے کہا کہ ہم نے معاشرے کو انصاف مہیا کرنے کا حلف لے رکھا ہے اور ہم آخری سانس تک اس عہد کو بغیر کسی خوف کے نبھاتے رہیں گے۔ چیف جسٹس نے ججز کی خالی آسامیوں پر تعیناتی کیلئے پنجا ب بھر کے ججز،بار ایسوسی ایشنز سے وکلاء کے نام طلب کئے اور اس مقصد کیلئے 280 ناموں کی فہرست موصول ہوئی جسے ہر لحاظ سے جانچا اور پرکھا گیا اور شفافیت کے اعلیٰ معیار کو پیمانہ بناتے ہوئے اس میں سے 16 ناموں کا انتخاب کیا گیا تاکہ سسٹم پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔ سمپوزیم سے جسٹس کاظم رضا شمسی، جسٹس امین الدین، جسٹس کاظم رضا شمسی ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ملتان شکیل احمد کے علاوہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور کے صدر نوازش علی میر زادہ، صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن وہاڑی ملک شبیر اعوان، صدر تحصیل بار ایسوسی ایشن علی پور سید فضل عباس نقوی اور لودھراں بار ایسوسی ایشن کے نمائندے ملک محسن اقبال نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے آخرمیں ججز اور وکلاء کو سوینئر پیش کئے گئے۔ صباح نیوز+ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات منانے کا مقصد عام آدمی کو یہ احساس دلانا ہے کہ متحرک عدلیہ صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے موجود ہے۔ بار اور عدلیہ نظام انصاف کے ناگزیر اجزاء ہیں، بار کے بغیر انصاف کی فراہمی ہر گز ممکن نہیں۔ افراد کے ذاتی معاملات اداروں کی ترقی میں حائل نہیں ہونے چاہیں ، ادارہ نہیں ہوگا تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ عدلیہ کی سربلندی اور وقار کیلئے کوشاں رہنا ہم سب پر لازم ہے۔ لوگ ہمارے پاس مقدمات لاتے ہیں اور ہم نے بلا خوف و خطر فیصلے کرنے ہیں۔ ہم ہر کیٹگریز بنا رہے ہیں۔ عدالت عالیہ کے ججز کی تعداد پوری کر رہے ہیں، آئی ٹی سسٹم لا رہے ہیں، لاہور کی جوڈیشل اکیڈمی کی شکل بدل دی ہے، مقدمات کی شیلف لائف میں کمی کر رہے ہیں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود ہم جلد فیصلہ نہیں کرتے تو تمام کوششیں رائیگاں ہیں۔ میں نے ہمیشہ شفافیت اور میرٹ کو مقدم رکھا ہے، سفارش‘ رعایت اور سمجھوتے سے نفرت ہے، ہم نے ہائیکورٹ کے ججزکی تقرری کا نیا طریقہ کار اختیار کیا ہے‘ میرٹ اور شفافیت میرا طرہ امتیاز ہے اور مقصد یہی ہے کہ ججز لوگوں کی دعائیں لیں اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں اپنے اختلافات بھلا کر آگے چلیں اور ادارے اور سسٹم کو مضبوط کریں۔ وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے آپس میں کھل کر بات کریں۔ بات چیت کا عمل کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ جاری رہے گا تو ہم وطن عزیز کو درپیش تمام مسائل کا جامع اور دیر پا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ بار اور بینچ کے ساتھ ساتھ سول انتظامیہ کا بھی انتہائی کلیدی رول ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عام شہری کی مشکلات‘ تکالیف‘ دکھ اور درد دورکرنے کے لئے سب ادارے بھرپور کوآرڈینیشن کے ذریعہ اپنا فریضہ مشنری قومی جذبے سے سرشار ہو کر سرانجام دیں۔ ہمیں اپنے ماضی کے عظیم‘ علمی و فکری قانونی ورثہ اور انصاف کی فراہمی کے لئے صدیوں پر پھیلی عظیم تاریخی روایات کے تسلسل کو اگلے ڈیڑھ سو سال تک فروغ دینے کے لئے انتہائی ایمانداری، جرات وبہادری اور کامل پروفیشنلزم کے ساتھ اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔

ای پیپر-دی نیشن