• news
  • image

پیپلزپارٹی کے پینترے اور حکومت کی بدحواسیاں

آصف زرداری دسمبر کے پہلے ہفتے میں اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آرہے ہیں۔ جس کے ڈر سے وہ دوبئی میں مقیم ہیں، ان کا وہ ڈر 29 نومبر کو ختم ہونیوالا ہے۔ بعض ڈر انسان کے خودساختہ ہوتے ہیں۔ ڈرنے کی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ آخر اور بھی تو کئی چور، ڈاکو، ملزم اور مجرم پاکستان میں ڈٹ کر رہ رہے ہیں۔ اُن پر کونسا ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ وہ بھی تو تمام تر ثبوتوں کے باوجود مزے کر رہے ہیں۔ میرا پندرہ سالہ مقولہ ہے کہ پاکستان کرپٹ لوگوں کیلئے جنت اور ایماندار شرفاء کیلئے جہنم ہے۔ یہاں ایک چور کو سو روپے چرانے پر تو لمبی اور سخت سزا ہو جاتی ہے لیکن ملک لوٹنے اور گروی رکھنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ جواہر لال نہرو نے کچھ غلط نہیں کہا تھا کہ پاکستان کے ادارے کمزور ہیں۔ سونیا گاندھی نے بھی سو فیصد درست کہا تھا کہ ہم اپنی ثقافت کے ذریعے پاکستان کو اپنے اندر ضم کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سسٹم ناقص اور بُودا ہے۔ افسوس کہ تینوں بدترین ہندوستانی رہنمائوں کی باتوں میں سچائی ہے۔ عمران خان نے کرپٹ مافیا کے خلاف آواز اٹھائی اور حکمرانوں کیخلاف عدالتوں میں شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ پہنچے۔ عمران خان سے زیادہ ثبوت میڈیا نے فراہم کئے لیکن عمران خان نے جس طرح عین موقع پر شادی کا شوشہ چھوڑ کر اپنی اور اپنی پارٹی کی ساکھ گرائی۔ دھرنا عروج پر تھا لیکن عمران خان نے 62 سال کی عمر میں شادی کا چونچلا رچا کر ساری دنیا میں خود کو ایک غیرسنجیدہ رہنما ثابت کر دیا۔ اب جبکہ معاملہ عدالتوں میں ہے تو عمران خان اپنی تیسری شادی کے چکر میں لندن جا بیٹھے ہیں۔ 65 سال کی عمر میں تیسری شادی کرنے کی کیا تُک ہے۔ قومی سطح کا ایک رہنما اپنی قوم کیلئے اپنا وقت، اپنا تن من دھن وقف کر دیتا ہے۔ عمران خان تو خود کو انٹرنیشنل لیول کا لیڈر سمجھتے ہیں۔ دو شادیاں کر لیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا کر لی۔ ماضی بھی بہت رنگین گزارا ہے اس لئے اب انہیں شادی کے بجائے اصولاً تو اللہ اللہ کرنی چاہیے لیکن اللہ اللہ نہ بھی کریں تو کم از کم اگر اپنے ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں تو اس میں سنجیدگی اور بردباری اختیار کریں۔ اب نہ وہ کھلاڑی ہیں اور نہ نوجوان۔ ملک بحران اور عذاب میں مبتلا ہے مگر ایک قومی لیڈر شادیوں کے شوق میں مبتلا ہے۔ دوسری طرف وہ وزیراعظم بننے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ تیسری طرف موجودہ حکومت اور شریف برادران پر کیس کر رکھے ہیں۔ عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ آصف زرداری اور پوری پیپلزپارٹی ایک نئی سیاسی چال کے ساتھ سیاسی بساط پر قدم جما چکی ہے اور آصف زرداری جیسا شاطر سیاستدان نئے تانے بانوں اور سازشوں کیساتھ پاکستان آرہا ہے۔ پیپلزپارٹی تیزی سے پینترے بدل رہی ہے۔ آصف زرداری نے دوبئی بیٹھ کر پیپلزپارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کے باوجود مفادات حاصل کئے ہیں اور انکے سرکردہ رہنمائوں نے خزانوں سے جھولیاں بھری ہیں۔ آصف زرداری پاکستان کے سب سے بڑے پولیٹیکل بروکر ہیں یا صاف لفظوں میں پولیٹیکل بزنس مین ہیں۔ حکومت آج بھی آصف زرداری کے بغیر سانس نہیں لے سکتی۔ کچھ لوگ اپنے پیاروں کو مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتے اور مرے ہوئوں کو بھی کیش کرتے رہتے ہیں۔ آصف زرداری کو تو جیتے جی ایسا پارس ملا تھا جسے چھو کر وہ خود سونا بن گئے اور جب بے نظیر بھٹو مریں تو ’’زندہ ہاتھی لاکھ کا، مرا ہوا سوا لاکھ کا‘‘ کی مثال بن گیا۔ عمران خان کو اِس وقت میدان نہیں چھوڑنا چاہیے تھا اور پاکستان میں ہونا چاہیے تھا۔ ساری توجہ کرپشن کیس پر مرتکز ہونی چاہیے تھی لیکن پاکستان میں جونہی شکست اور پسپائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے نام نہاد لیڈر بیماریوں اور ضروری کاموں کے نام پر باہر بھاگ جاتے ہیں۔ چھٹی جماعت میں بیماری اور ضروری کام کی درخواستیں اسی لئے پڑھائی جاتی ہیں کہ کل کو اس طرح کے کاموں میں کام آئیں۔ اگر عمران خان کرپشن کیس میں جیت جاتے تو جہاں یہ عوام پر ایک احسان عظیم ہوتا، وہاں عمران خان کو وزیراعظم سے زیادہ پروٹوکول ملتا اور وہ اَمر ہو جاتے۔ عمران خان کو لوگ قومی لیڈر، نجات دہندہ اور دیوتا ماننے لگتے لیکن افسوس کہ عمران خان کو بڑھاپے میں شادیاں رچانے کا شوق پڑا ہوا ہے۔ دو ناکام شادیوں کے بعد تیسری کا رسک لینا حماقت ہی تو ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان اِس کیس کو جی جان سے لڑیں اور منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اس کیس میں خود عدلیہ کی ساکھ کا سوال پیدا ہو گیا ہے۔ اگر حقائق کے برعکس عمران خان نے غفلت برتی تو آصف زرداری کے دونوں ہاتھ گھی میں، سر کڑاہی میں اور دھڑ ’’بڑھائی‘‘ میں ہو گا۔ پیپلزپارٹی نے جس طرح پانامہ لیکس کے معاملے میں ٹی او آرز کے معاملے میں لٹکایا، بہلایا، پھسلایا، ورغلایا اور بھٹکایا۔ اُس سے پیپلزپارٹی کی بدنیتی کا اندازہ ہو جانا چاہیے تھا۔ نواز شریف اور آصف زرداری کا بھائی چارہ کتنا گہرا ہے کہ ایان علی جسکے ذریعے اربوں روپیہ بیرون ملک پہنچایا گیا جو خود اس وقت کروڑ پتی ہے۔ ایک گھنائونے جرم کے باوجود موجودہ حکومت نے اسے قومی ہیروئن بنا دیا ہے۔ وہ مزے سے آزاد پھر رہی ہے لیکن اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے ایک غریب عورت دو چار سو روپے کی چوری کر لے تو یہ اُسکی ہڈیاں پسلیاں توڑ دیتے ہیں۔ اب بلاول بھٹو نے ابا جان کے حکم پر لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ چار نکات پر حکومت کو دبائو میں لا رہے ہیں۔ پانامہ لیکس پر اپنے ڈھب سے عہدے، مراعات، فیصلے اور کیش وصول کرینگے۔ بلاول بھٹو نے کمان سنبھال لی ہے۔ عین ممکن ہے کہ آصف زرداری 29 نومبر کی رات ہی وطن واپس آجائیں۔ حکومت مضطرب ہے کیونکہ عمران خان محص جذباتی ہیں اور ڈائیلاگ ڈیلیوری تک محدود رہتے ہیں۔ انکے تِلوں میں تیل نہیں مگر زرداری سب پر بھاری ہے۔ زرداری کا ہر وار کاری ہوتا ہے۔ حکومت کو عدالتوں سے کوئی خوف نہیں، ہونا بھی نہیں چاہیے لیکن 29 نومبر کو ایک مشکل سے نکل کر نئی مصیبت میں پھنسنے والے ہیں کیونکہ زرداری زر کے سوا کسی کا نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن