• news
  • image

ڈکٹیٹر؟

عمران کیوں پارلیمنٹ ہاﺅس نہ گئے۔ عمران پارلیمنٹ کا بائیکاٹ جاری رکھ سکتے تھے مگر انہوں نے کبھی سوچ سمجھ کر فیصلے نہیں کیے۔ وہ ہمیشہ جذباتی فیصلے کرتے ہےں‘ قبل ازوقت فیصلے کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں جاتے۔ برادر مسلمان ملک ترکی کے صدر کا خطاب سنتے اور باہر آ جاتے۔ بائیکاٹ اپنی جگہ پر رہتا۔ 

”صدر“ زرداری کے زمانے میں چودھری نثار علی خان اپوزیشن لیڈر تھے۔ وہ وزیراعظم گیلانی اور صدر زرداری کے بہت خلاف تھے مگر ترک صدر کی تقریر سننے پارلیمنٹ میں چلے گئے۔ ان کی بہت تحسین کی گئی۔ سیاسی حلقوں میں ان کے اس دلیرانہ اور دانشمندانہ اقدام کے لیے بہت اچھا محسوس کیا گیا۔ چودھری صاحب اور عمران خان کلاس فیلو ہیں۔ دونوں ایچی سونین ہیں۔ چودھری صاحب نے کوشش کی کہ عمران کو راہ راست پر لائیں۔ مگر عمران براہ راست کسی دوست کی بھی نہیں مانتے۔ پرویز خٹک بھی ایچی سونین ہیں۔ اب آپ اندازہ کریں کہ عمران کس طرح کے دوستوں کو پسند کرتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عمران اپنے ہر اقدام سے نواز شریف کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ مضبوط کر تے ہیں بلکہ ان کے قدم بھی مضبوط کرتے ہیں تو نواز شریف کے کسی بھی اقدام کو مدد ملتی ہے۔ اس کی تفصیل بھی وہ بیان کر دیتے ہیں۔ عمران تو کہتے ہیں کہ خورشید شاہ نواز شریف کے سیاسی مددگار ہیں۔ ہر طرح سے مدد صرف خوش قسمت نواز شریف کی ہوتی ہے۔
خورشید شاہ نے کہا ہے کہ چودھری نثار ڈکٹیٹر ہیں۔ خورشید شاہ کا عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جو بھی آدمی کسی تھوڑے بہت اختیار کا مالک ہو گا۔ ان کا کسی پر بس نہیں چلتا ہو گا اور کوئی کسی طرح بھی ان کا محتاج ہو گا۔ وہ اس کے لیے ڈکٹیٹر بن جائیں گے۔ حاکم اور محکوم کی تقسیم دنیا میں ہر زمانے میں رہی ہے۔ اور یہ ہر سطح پر قائم ہے۔ محکوم کو مظلوم بھی بنا دیا جاتا ہے اور پھر اسے محروم بھی کر دیا جاتا ہے۔ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ میں دہشت گردوں کے لیے ڈکٹیٹر ہوں۔ میں پچھلے 32 سال سے اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ میں نے واضح ہدایات دی ہیں کہ کسی عورت کو گرفتار نہ کیا جائے۔ نواز شریف کے لیے بھی ڈکٹیٹر کی آواز ابھرتی ہے۔ نجانے آصف زرداری کے لیے یہ بات کیوں نہیں ہوتی۔
شاہ محمود قریشی پارلیمنٹ میں جانے کے حق میں تھے۔ کور کمیٹی میں اکثریت کی رائے یہی تھی کہ ترک صدر کے لیے پارلیمنٹ میں جانا چاہیے۔ ترک سفیر بھی عمران خان سے ملنے کے لیے آئے مگر عمران کی زبان سے جو نکل گیا وہی حرف آخر ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی زبان سے نکلا ہوا حرف قرآن کریم کا حرف تو نہیں ہوتا۔ مگر میں یہاں کچھ کہتے ہوئے اپنے علماءکرام سے ڈرتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران اپنے آپکو عام انسان سمجھتا ہی نہیں۔ جینوئن خاص انسان وہی ہے جو عام انسانوں کو اپنے ساتھ لے کے چلے۔ اب پتہ چلتا ہے کہ عمران خان نہ خاص آدمی ہیں اور نہ عام آدمی ۔ پھر وہ کیا آدمی ہیں۔
چودھری نثار سے پوچھیں گے مگر وہ تو لندن گئے ہوئے ہیں۔ برادرم نواز رضا نے بتایا ہے کہ پہلے چودھری صاحب کی آنکھوں کا آپریشن ہو گیا ہے اور اب ”ہرنیا“ کا آپریشن ہو گا۔ اللہ انہیں صحت مند رکھے اور توانا رکھے۔ وہ نواز شریف کی کابینہ میں اکیلے وزیر ہیں باقی وزیر شذیر ہیں۔ ان سب سے تو مریم نواز لاکھ درجے بہتر ہیں۔ پہلے بھی اس بات سے لوگ میرے ساتھ بہت خفا ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں وزیر چودھری نثار ہیں تو دوسروں کی کیا ضرورت ہے؟ اس ضرورت کا تو مجھے کچھ پتہ نہیں ہے۔ ویسے پاکستان میں غیرضروری لوگ ضرورت مند لوگوں سے ناجائز فائدہ بہت اٹھاتے ہیں۔
عمران کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ جہانگیر بدر کے گھر جا کے تعزیت کرتے۔ عمران کو زرداری صاحب نے انوکھا لاڈلا کہا ہے۔ نواز شریف جہانگیر بدر کے گھر گئے۔ ایک تصویر میں نواز شریف اور حسین نواز جہانگیر بدر کے بیٹوں سے گلے مل رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی۔ مجھے ان کے روابط کا علم نہ تھا۔ مگر نواز شریف جہانگیر بدر کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم سے پرانا تعلق تھا۔ ایسے لوگ ہوں گے تو ملکی سیاست کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ ن لیگ کے خواجہ حسان اور رابعہ فاروقی کے علاوہ بھی کئی لوگ وہاں موجود تھے۔ جہانگیر بدر اچھے انسان تھے۔ مخالفین سے بھی عزت کے ساتھ بات کرتے تھے۔ وہ دل کے صاف آدمی تھے۔
مجھے نواز شریف کا یہ اقدام اور یہ باتیں اچھی لگیں۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ جہانگیر بدر نواز شریف سے کبھی ملے ہوں گے۔ نواز شریف ان کے گھر گئے تو لگتا ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود جہانگیر بدر انسانی روابط میں بہت کشادہ دل تھے۔ نواز شریف نے بھی جہانگیر بدر کی دوستانہ وسعتوں اور پذیرائیوں کو محسوس کیا۔ جہانگیر بدر کے گھر اپنے ساتھ اپنے صاحبزادے حسین نواز کو بھی لیتے آئے۔ نواز شریف کے رشتہ دار میرے دوست شاہد بٹ بتاتے ہیں کہ حسین نواز دل کے بہت سادہ ہیں۔ میں اپنے دوست جہانگیر بدر کے لئے اس محبت والے تاثر کی وجہ سے نواز شریف اور حسین نواز کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے آصفہ بھٹو زرداری سب سے پہلے جہانگیر بدر کے گھر گئیں۔ صدر آصف زرداری اپنی بیٹی آصفہ سے محبت کرتے ہیں۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ کوئی مجھے محبت سے دیکھ لے تو میں بے قرار ہو جاتا ہوں مگر میں اس کے لئے کیا کروں کہ میں کسی حکمران کے ساتھ کسی ملک میں نہیں گیا۔ میں چین جانا چاہتا ہوں مگر وہاں ذاتی طور پر جانا میرے لئے ممکن نہیں؟۔ مجھے ”صدر“ زرداری کی طرف سے برادرم عبدالقیوم سومرو نے عمرے کی دعوت دی تھی۔ میرے بچوں نے امی جان کو بتا دیا تو انہوں نے مجھے حکم دیا کہ تم ضرور جاﺅ۔ یہ دعوت کسی اور طرف سے ہوتی ہے۔ وسیلہ کچھ لوگ بنتے ہیں۔ امی جان نے ”صدر“ زرداری کے لئے دعا کی۔ دعا عبدالقیوم سومرو کے لئے بھی کی۔ وہ تو میرے گھر کئی بار آئے۔ امی انہیں جانتی ہیں۔ ایک دفعہ مجھے پیغام ملا کہ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور مجھے ملنا چاہتی ہیں۔ غالباً خود اُن کا بھی فون آیا تھا مگر ملاقات نہ ہو سکی۔ اب تک نہیں ہوئی۔ تب زرداری صاحب جیل میں تھے اور میں نے کئی کالم زرداری صاحب کے لئے لکھے تھے۔ برادرم منور انجم کے ساتھ انہیں ملنے کوٹ لکھپت جیل بھی گیا تھا۔ مجھے قیدی اور قائد میں کوئی فرق نظر نہیں آتا مگر مجھے قیدی اچھے لگتے ہیں۔
نظربند تو چوہدری نثار بھی بہت رہے ہیں۔ باقاعدہ قید نہیں کاٹی۔ گھر میں نظربندی بھی ایک قید ہی ہے۔ وہ وزیر ہوتے ہوئے بھی پنجاب ہاﺅس میں ٹھکانہ بناتے ہیں۔ میرے ساتھ ان کی دو ملاقاتیں ہوئی ہیں دونوں پنجاب ہاﺅس میں ہوئیں۔ برادرم نواز رضا کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن