لیجنڈ جہانگیر بدر
مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں علم کے ایک ادنیٰ طالب کی حیثیت میں عرض کروں کہ آجکل جن لوگوں کو تھنک ٹینک کے نام سے جانا جاتا ہے گزرے زمانوں میں ایسے لوگوں کو فلاسفر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایسے لوگوں کے بارے مشہور تھا کہ انکی کہی باتوں میں سمندر کی گہرائی اور آسمانوں کی وسعت سمٹی ہوتی تھی اور اْنہیں سمجھنے کیلئے ایک فہم (سائنس) کی ضرورت ہوتی تھی۔ فہم کی دنیا کا ذکر چل نکلا تو عرض کروں سقراط، افلاطون اور ارسطو وہ نام ہیں جنہوں نے اپنے پیچھے اس سلسلے میں صرف نام چھوڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ تو وہ لوگ ہیں جنکے نام سے منسوب مختلف سکول آف تھاٹ کے ذریعے اس علم کی بقاء کا سلسلہ آگے چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں آج افلاطون کا ایک قول رقم کرنا چاہونگا۔ افلاطون صاحب فرماتے ہیں طبیب کی غلطی ایک دو انسان ہی مارتی ہے لیکن لیڈر کی غلطی پوری قوم کو برباد کر دیتی ہے۔ اس گہری بات کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ لیڈر دراصل ہوتا کون ہے۔ بقول "نپولین بونا پارٹ " جسکا اٹھارویں صدی میں انقلاب فرانس کے دوران بہت بڑا کردار رہا ہے کہتا ہے کہ "لیڈر امیدوں کا سوداگر ہوتا ہے" اگلی صدی انیسویں صدی کا ایک کردار "رے کراک" جسکا اصل نام ریمنڈ البرٹ تھا جو 1902ء میں پیدا ہوا اور جس نے 1954ء میں فوڈ چین "میکڈانلڈ " کو جوائن کرکے جسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا اور کاروبار کی دنیا میں لیڈنگ رول کی ایک پہچان چھوڑی کہتا ہے " ایک لیڈر کی پہچان دراصل اسکی اپنے لئے وضع کردہ اصولوں ، معیار اور ترجیحات سے ہوتی ہے" جبکہ اسی لیڈرشپ کے بارے میں آج کے دور کا ایک نام سائمن سائنک جو 1973ء میں پیدا ہوا اور لیڈرشپ رول کے متعلق جسکے مضامین اور مکالمے آجکل نہ صرف پڑھے اور سنے جا رہے ہیں بلکہ ان سے راہنمائی بھی حاصل کی جا رہی ہے وہ شخص لیڈر کے کردار کے بارے میں کہتا ہے کہ "لیڈر کا کام آنیوالے الیکشن کے بارے میں نہیں بلکہ آنیوالی نسلوں کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے"ان صائب الرائے اشخاص کے فرمودات کی روشنی میں اپنے ملک پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتا ہوں تو ارسٹھ سالہ دور ایک اجڑے دیار کا نقشہ ہی پیش کرتا ہے۔ ماضی کے قصے اور کرداروں پر تو تنقید کی حد تک اکتفا کیا جا سکتا تھا لیکن ان دنوں لیڈرشپ کے اس کھیل میں شامل کھلاڑی اپنے اپنے کرداروں کی وجہ سے اس لیڈرشپ کے مقدس چہرے پر چیچک کی طرح جو بدنما اور انمٹ داغ چھوڑ رہے ہیں انہیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب حالات کا جبر اس ملک کی عوام کو اتنا مجبور کر دیگا کہ وہ حالات کو ان نام نہاد لیڈروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیںگے بلکہ ان حالات کو وہ اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ میری اس رائے کے پیچھے میری کوئی ذاتی خواہش نہیں بلکہ آنیوالے دنوں میں ظاہر ہونے والے وہ زمینی حقائق ہیں جو پانامہ لیکس، نیوز لیکس اور کچھ دیگر ایشوز پر رعایتوں اور سمجھوتوں کی شکل میں قوم پر آشکار ہونے جا رہے ہیں جس پر عوام کی اکثریت یقیناً یہ کہے گی کہ "جانجی وی چور تے مانجی وی چور ، چوراں نوں ویان گئے سی چوراں دے گھر چور" لیکن انگریزی کا محاورہ ہے exceptions are always there بعض اوقات دنیا میں کچھ ایسے واقعات ظہور پذیر ہو جاتے ہیں جو صرف اپنے کرداروں کو ہی امر نہیں کرتے بلکہ وہ ایسے محاوروں کو بھی ایسی جلا بخش جاتے ہیں کہ وہ محاورے صرف محاورے نہیں رہتے بلکہ زندہ تصویر بن کر ہر خاص و عام سے ہمکلام ہو کر فکر کی ایک دعوت بھی دیتے رہتے ہیں۔ جی ہاں قارئین یہ واقع ہے پاکستان کی سیاست کے اْفق پر ساٹھ کی دہائی میں ایوبی دور کے آمرانہ رویے کیخلاف اندرون شہر لاہور کے دہلی دروازے کی تنگ و تاریک گلیوں کے ایک متوسط طبقے سے ابھرنے والا ایک معمولی کارکن جسکے بڑوں میں نہ کوئی امیر تھا نہ کبیر نہ صنعتکار نہ جاگیردار نہ کوئی سیاستدان نہ حکمران جسکی اساس تھی اسکی کمٹمنٹ اسکی وفا جہانگیر بدر کی اس دنیا سے رخصتی۔ قارئین اس شخص کے نماز جنازہ میں جس سطح پر جس عقیدت اور جس احترام کے ساتھ عوام کے ہر طبقے، ہر شعبے، ہر فرقے اور ہر علاقے سے لوگوں نے شرکت کی اور اسکے بعد جس طرح پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور بازبان خاص و عام اپنی پارٹی اور اپنی قیادت سے وفا کی جو تعریف کی جا رہی ہے وہ خاصکر اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کیلئے ایک مثال بن گئی ہے کہ کمٹمنٹ اور وفا کا بدلہ اپکو آخرت میں ہی نہیں ملیگا۔ خدا اور اسکی مخلوق اس دنیا میں بھی ایسے لوگوں کو نہیں بھولتے۔ قارئین صحافت کی دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا ستارہ رہ گیا ہو جس نے جہانگیر بدر کے متعلق اپنی یادداشتوں اور اپنے تعلق کے متعلق نہ لکھا ہو اتنے بڑے بڑے ناموں کے سامنے اس ناچیز کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ 1976ء اور 1977ء کے دوران یہ خادم ہیلی کالج میں موصوف کی شاگردی میں رہا اور پھر کچھ سالوں کے بعد بدر صاحب کے ساتھ اپنے دوست میاں اکرم کی وساطت سے جو بدر صاحب کو جان کی طرح عزیز تھا قربت اس طرح بڑھی کہ گھریلو سطح پر بھی بدر صاحب کے روز و شب کوئی راز نہ رہے۔ آج جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو نوے کی دہائی کا وہ بدر آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے جو بطور پٹرولیم کا وزیر اپنے ہی گھر میں زمین پر سو رہا ہوتا تھا اور اسکے سیاسی کارکن اسکے بیڈ روم پر قبضہ جمائے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے تھے آج اسلام آباد پنجاب ہاؤس کے اے بلاک کا کمرہ نمبر چار بھی یاد آرہا ہے جب راحت پیرزادہ، میاں اکرم جسے بدر صاحب لاڈ سے چٹا کہہ کر پکارتے تھے اور راقم بدر صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوتے تھے تو وہ اپنی پڑھائی اور عملی سیاست کی جدوجہد کے قصے سناتے تھے۔ مجھے یاد ہے وہ کہتے کہ یار پیپلز پارٹی اور بھٹو فیملی میرے اندر سمائی ہوئی ہیں میرے انگ انگ ، لوں لوں اور رگِ خون میں انکی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ بیشک یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن بدر صاحب کی موت کے بعد کے episode نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بدر صاحب کی پہچان پیپلز پارٹی سے نہیں بلکہ اسکی اس کمٹمنٹ ، وفا، خلوص کی وجہ سے تھی جو پاکستان کی سیاست میں ایک سکول آف تھاٹ کے نام سے ابھرے گی کہ کس طرح وفا اور لگن ایک عام کارکن کو ایک لیڈر کا مقام بخشتی ہے۔