• news

ترکی:1988 فوجیوں سمیت مزید15 ہزار ملازمین برطرف ، اوباما انتظامیہ سے مایوسی ہوئی: اردگان

استنبول( بی بی سی + نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) ترکی میں کریک ڈائون جاری ہے جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے کے الزام میں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں سمیت مزید 15 ہزار سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا گیا۔مزید 9میڈیا اداروں 18 خیراتی اداروں اور دیگر 500 اداروں کو بند کر دیاہے۔ رائٹرز کے مطابق دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے شک میں برطرف کئے جانے والے ملازمین میں سے مسلح افواج کے 1988ء اہلکار 7586 پولیس اہلکاروں کے علاوہ دیگر سرکاری محکموں کے ملازمین شامل ہیں۔ ترکی میں حالیہ برطرفیوں سے پہلے ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد 18000 ہزار گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔ پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے 66000 افراد کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے اور 50 ہزار کے پاسپورٹ منسوخ کئے جا چکے ہیں اس کے علاوہ 142 میڈیا اداروں کو بند کیا جا چکا ہے۔ ادھر ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ انہیں اوباما کی انتظامیہ سے بہت مایوسی ہوئی ہے کیونکہ وہ مشرقِ وسطی کے مہاجرین کے بحران مل نہ سکا اورامریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کو بے دخل کرکے ترکی کے حوالے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ امریکی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا اوباما انتظامیہ ان ایشوز کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہی ہے۔ ترکی میں اس وقت شام اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے قریبا 30 لاکھ مہاجرین رہ رہے ہیں۔یہ تعداد یورپ جانے والے تمام شامی مہاجرین کی تعداد سے دگنا ہے۔ پھر امریکہ سے مطالبہ کیا وہ فتح اللہ گولن کو ان کی حکومت کے حوالے کرے۔ اگر امریکہ فتح اللہ گولن کو بے دخل کرنے سے گریز کر رہا ہے تو ترک عوام یہ سمجھیں گے کہ امریکہ کا ناکام فوجی بغاوت میں ہاتھ تھا۔ انھوں نے کہا'' یہ شخص ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کا لیڈر ہے جس نے میری پارلیمان پر بمباری کی تھی''۔ انھوں نے بتایا کہ ''ترکی نے ماضی میں مشتبہ دہشت گردوں کو بے دخل کرکے امریکہ کے حوالے کیا تھا اور اب وہ اپنے اپنے امریکی اتحادی سے بھی یہی توقع کرتا ہے''۔ بغاوت کے دوران خوفزدہ نہیں ہوا۔ پولیس فوج اور جوڈیشری میں گولن کے حامی ابھی سرگرم ہیں۔ ان کا خاتمہ کرینگے۔ترک صدر اردگان نے کہا یہ نامناسب ہو گا یہ کہا جائے کہ اسرائیل اور ہٹلر میں سے زیادہ کون وحشی تھا۔ انکے ریمارکس سے اسرائیل سے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔ سفیروں کی تعیناتی کے بعد انکا بیان سامنے آیا ہے۔ صہیونی ٹی وی کو انٹرویو میں یہ بات کہی۔

ای پیپر-دی نیشن