• news
  • image

کراچی کی سیاست میں جنرل پرویز مشرف بھی فریق؟

سابق صدر پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کا باب بند کرنے کا مطالبہ کردیا جس کے ساتھ ایم کیو ایم کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ ایم کیو ایم کی بساط کب لپیٹ دی جائے گی۔ آنے والے دنوں میں جہاں ایم کیو ایم لند ن کا منظر نامہ دھندلا یا ہوا ہے وہاں ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست الجھی ہوئی ہے۔ یہ بات بھی طے ہو گئی ہے کہ اب ایم کیو ایم نئے نام سے سامنے آئے گی اور اس کے قائد کم از کم الطاف حسین نہیں ہوں گے۔ سابق صدر پرویز مشرف کو ایم کیو ایم کا سربراہ بنانے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ فاروق ستار نے پرویز مشرف کی قیادت کو ویٹو کردیا لیکن پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفےٰ کمال مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد اور عامر خان خاموش ہیں۔ معاملات بدستور ابہام کا شکار ہےں۔ ایم کیو ایم کس کی جھولی میں گرے گی‘ کون سربراہ ہو گا یہ معاملات طے نہیں ہوئے ہیں۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اس کو ملے گی جس کے پاس ووٹ بنک ہو گا اور اس بات کا تعین 2018ءمیں ہو گا جو میدان مارے گا ایم کیو ایم اس کی ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے ایم کیو ایم پاکستان کا مستقبل تابناک ہے ۔ جس نے صوبائی حلقہ 127 کے ضمنی انتخابات میں 27 ہزار ووٹ لئے تھے لیکن اس وقت ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں تھی اب ایم کیو ایم لندن کھل کر ڈاکٹر فاروق ستار اینڈ پارٹی کی راہ میں مزاحم ہے ۔ کراچی کی سیاست میں فریقوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ 2018ءکے الیکشن میں ایم کیو ایم کے کئی دھڑے جب میدان میں ہوں گے تو ووٹ بنک تقسیم ہوجائے گا۔ جس پر ایم کیو ایم کے مخالفین کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم اپنی موت آپ مرجائے گی اور مینڈیٹ کا کیک دوسری جماعتوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ 92ءمیں جب عامر خان اور آفاق احمد نے بغاوت کی تھی تو الطاف حسین نے ان کو موت کا حقدار قرار دیدیا اور کراچی کی دیواریں قائد کا جو یار ہے ‘ موت کا حقدار کے نعرے سے رنگ دی گئی تھیں۔ فاروق ستار‘ خواجہ اظہار ‘ فیصل سبزواری کو غدارقرار دیدیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو بیک وقت کئی امتحانوں کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم ایم کیو ایم لندن کی یلغار کو روکنا ہے وقت کے ساتھ ساتھ کم از کم کراچی کے بلدیاتی اداروں میں ایم کیو ایم لندن کی مزاحمت بڑھ رہی ہے اور یونین کونسلوں کے چیئرمین بغاوت پر آمادہ ہیں۔ وہ بانی ایم کیو ایم کےلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور تیزی سے واپس لوٹ رہے ہیں بعض اطلاعات کے مطابق کم از کم 100 چیئرمین ایم کیو ایم پاکستان سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔میئر کراچی وسیم اختر کی رہائی کے بعد کے ایم سی میں منظر بدل گیا۔ ڈپٹی میئر اور میونسپل کمشنر کا کنٹرول ختم ہوگیا ۔ اب وسیم اختر اپنی انتظامی ترجیحات کا تعین کریں گے اور افسر شاہی میں ایک بار پھر ردوبدل ہوگا ان کی رہائی کے بعد زیر عتاب افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جو افسران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ پریشان ہوگئے کیوں کہ وسیم اختر اپنی ٹیم لائیں گے ۔ ان کے کام کرنے کا اپنا اسٹائل ہے۔ لندن کے بعد دبئی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور ایم کیو ایم کے رہنما الگ الگ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ان کی آپس میں ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) جس نے عشرت العباد کو گورنر شپ سے ہٹا کر خود کو منوایا ہے اور طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ دبئی سیاست سے الگ تھلگ ہے۔
اس سے قبل خواجہ اظہار الحسن کی سابق صدر سے ملاقات کے بعد کھلبلی مچ گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق خواجہ اظہار الحسن کو سابق گورنر عشرت العباد نے پرویز مشرف کے پاس بھیجا تھا جب یہ بات وزیراعظم محمد نواز شریف کو پتہ چلی تو انہوں نے گورنر سندھ عشرت العباد کو ہٹا کر پرویز مشرف کو سخت پیغام دیا ۔ لیکن کراچی اور حیدر آباد میں پرویز مشرف نامنظور کے نعرے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ دریں اثناءانسداد دہشت گرد ی کی عدالت سے ضمانت منظور ہونے کے بعد میئر کراچی وسیم اختر کو بدھ کی شام سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا۔ رہائی پر ایم کیو ایم کے رہنماﺅں ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان سمیت ہزاروں لوگوں نے وسیم اختر کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور نعرہ بازی کی۔ ایم کیو ایم کے کارکن اس موقع پر پاکستان کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ رہائی کے بعد وسیم اختر نے کہا کہ وہ خوش ہیں اور اب کراچی کی خدمت کریں گے۔ شہر کے مسائل کے حل کےلئے انہوں نے پلان تیار کرلیا اور ترجیحات کا تعین کرلیا ہے ۔ میئر کراچی کی رہائی کے بعد ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور رہائی کے جشن کی راہ میں حائل ہوگئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن