بھارت کی ریشہ دوانیاں، آرمی چیف کی رخصتی اور حکمران
فیروز شاہ تغلق سلاطین کو دہلی کا نامور اور مقتدر سلطان مانا جاتا رہا ہے ان کے پاس جب خلیفہ وقت کے ایلچی پروانہ توثیق لے کر پہنچے اور انہیں علم اور خلعت پیش کی تو فیروز شاہ تغلق خلیفہ وقت کے دارلخلافہ کارخ کرکے سربسجود ہوگئے اور سجدہ شکربجالائے۔اور حلیفہ کے ایلچیوں کی بھی بے حد تکریم کی ہمارے حکمرانوں کو بھی اسی قسم کی تعظیم و تکریم امریکی صدر اورا ن کے ایلچیوں کی کرنا پڑتی ہے اور اگر کہیں بھولے سے بھی کوئی امریکی صدر کسی مسلم ملک میں بنفس نفیس تشریف لے جائے تو پھر اس ملک کا حکمران اس دورے کو اپنے لیے ’’سند حکمرانی‘‘سمجھ لیتا ہے لیکن بعض اوقات امریکہ کے کسی صدر کا دورہ الٹا گلے بھی پڑ جاتا ہے جیسا کہ شاہ ایران کے ساتھ ہوا جو بے جااور مبالغہ آمیز حد تک تعریف و توصیف میں مبتلا رہے مگر امریکی صدرجمی کارٹر کا دورہ انہیں مہنگا پڑ گیا یعنی کبھی کبھی بے جا تعظیم و تکریم اور خوشامد والا معاملہ اقتدار کو طوالت بخشنے کے بجائے اقتدار کے اختصار کا باعث بھی بن جاتا ہے ہمارے ہاں امریکہ کی چاکری کا رواج تو پرانا ہو چکا ہے مگر موجودہ حکومت کا بھارت کا کے ساتھ اپنایا گا رویہ سمجھ میں نہیں آسکا بقول مرتضٰے برلاس…؎
رودادِ غمِ دل کہتے ہوئے جرأت سے کام نہیں لیتے
جو اصل میں اپنا دشمن ہے اس کا نام نہیں لیتے
بھارت نے دودن قبل پھر سے سرحدی بدمعاشی کی جرات کی بس اور ایمبولینس پر حملہ کیا ہمارے تین فوجی کیپٹن تیمور علی لانس نائیک غلام حسین اور حوالدار مشتاق شہید ہوئے ذرا ان شہداء کے روشن روشن چہرے دیکھیں اور پھر ان کی ماؤں سے پوچھیں کہ ان کے لئے ان جگر گوشوں کی لاشوں کو وصول کرنا کتنا اذیت ناک مرحلہ تھا مگر اس سارے دکھ درد اور بھارت کے وحشیانہ اقدام پر وزیر اعظم محترم نواز شریف یہ تو کہتے رہے کہ ہم اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں یہ بہادر سپوت تھے لیکن بھارت سرکار کے مودی کو کوئی بھی سخت جواب دینے کی بجائے یہ کہتے رہے کہ پاکستان صبر و تحمل کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔یعنی ایک ملک دوسرے ملک کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے ہمارے معصوم بے گناہ شہریوں کی جانیں لے رہا ہے ہمارے فوجی جوان شہید کررہا ہے سرحدی خلاف ورزیاں کرکے ہر روز ہمارے منہ پر تھپڑ مار رہا ہے مگر ہمارے وزیراعظم صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔جبکہ یہی وزیراعظم جب اپنی ذات پر کوئی بات آتی ہے تو فوراً قوم سے خطاب کرکے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں تفصیلات بیان کررہے ہوتے ہیں اور ذرا دیر کے لیے بھی صبروتحمل یا انتظار کی پالیسی پر راضی نہیں ہورہے ہوتے۔ موجودہ حالات میں امریکہ کے الیکشن کے نتائج کے بعد ٹرمپ کا اقتدار میں آنا اور پھر بھارت سرکار کی من مانیوں اور جنگ کے آغاز کو معمولی نہیں سمجھا جاسکتا بھارت نے اپنی سرحد پر خار دار تاریں لگا کر اسے محفوظ کرلیا ہے ہماری سرحد اور سرحد کے قریب لوگ غیر محفوظ ہیں جبکہ ہمارے ہاں حکمران اپنی اپنی چار دیواری کو پختہ کرنے میں مصروف ہیں اپنی تنخواہوں کے اضافہ میں لگے ہوئے ہیں۔دوسری طرف پوری قوم آرمی چیف کی رخصتی پر انہیں خراج تحسین پیش کررہی ہے جنہوں نے پروانہ توثیق لینا گوارا نہیں کیا اور جیسے وقت سے پہلے زیر بحث بھی لایا گیا تھا مگر بھارت کے تازہ ترین حملوں کے بعد بھی آرمی چیف نے ہی دشمن کو وارننگ دی ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے ورنہ اسے سبق سکھایا جائے گا ۔اوراب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت میں صدر ممنون گورنر سندھ کے انتخاب کے علاوہ مشیر خارجہ تینوں پر موجودہ مسائل سے بڑھ کر بوجھ لاد دیا گیا ہے ان حالات میں خاص طور پر وزیر خراجہ کی تقرری اور خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کی ازحد ضرورت ہے اور کب تک ایسا ہوتا رہے گا کہ محترم وزیراعظم اپنے خاندان کے لوگوں کے علاوہ ملک میں موجود دوسرے باصلاحیت افراد کو تلاش کرنا پسند نہیں کریں گے اس ملک میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ سیاست کے گند میں لوگ پڑنا نہیں چاہتے اس ساری صورتحال میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف شاندار انداز میں اس ملک کے لیے اپنی خدمات سرانجام دے کر رخصت ہورہے ہیں نئے آرمی چیف کا اعلان بھی متوقع ہے لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر ایک شعر یاد آرہا ہے …؎
موجودہ ابتری کا اگر ہے علاج کچھ
پُرمغز ایک شوریٰ ہے جمہوریت نہیں
جمہوریت ضروری ہے لیکن آمریت نما جمہوریت میں ضروری ہے کہ ایسی شوریٰ بھی ہو جو داخلی نظم و ضبط کے لیے کام کرے جو بارڈر کی حفاظت نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور دیگر معاملات پر نظر رکھیں ویسے تو چیدہ چیدہ کئی فورمز بنے ہوئے ہیں مگر اس سے بہتر انداز کے پورے ’’ونگ‘‘ کی ضرورت ہیں۔اسلامی تاریخ میں بھی خلیفہ وقت کی اہمیت ہوا کرتی تھی اور مسلمانوں کا امام خلیفہ وقت ہوا کرتا تھا اور وہ ایسا خلیفہ ہوا کرتا تھا جو دین کا پاسبان اسلام کا محافظ اور ریاست کا منصف اعلٰی ہوتا تھا اور جانشین رسولؐ ہونے کے ناتے امت مسلمہ کا سربراہ ہوتا تھا اور مظلوموں کا سپہ سالار ہوتا تھا اور بادشاہ سلامت اپنے ملک میں خلیفہ کا نائب ہوتا تھا ہمارے ملک میں بد قسمتی سے اگر جمہوریت بادشاہت میں بدلنے لگی تو ضروری ہے کہ ایسی شوریٰ بنائی جائے جو متفقہ طور پر خلیفہ وقت مقرر کرے جو جمہوریت کو بادشاہت میں بدلنے نہ دے اور جو اسلام کا محافظ ہو جو دین کا پاسبان ہو جو نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہو اور جو کرپٹ حکمرانوں کو آنکھیں دکھا سکے لیکن اس حکومت کو تجاویز دینا بھی دشوار ہے اور ایسا شخص تلاش کرنا بھی دشوار ہے کیونکہ اس وقت ایک اور بات بھی کی جارہی ہے کہ بھارت کشمیر کے اندر اٹھنے والی آزادی کی نئی لہر سے دنیا کی نظریں ہٹانے کے لیے سرحدی خلاف ورزی کررہا ہے اور جنگ کے حالات پیدا کررہا ہے ان حالات میں کشمیر کمیٹی کی کتنی اہمیت ہے اور وہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں کیا کام کرتی نظر آرہی ہے؟ملک میں موجود اداروں کی تباہی کے ساتھ ساتھ ایسی کئی کمیٹیاں موجود ہیں جو پیسہ بٹورنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کررہی ہیں۔مگر سوچنے کی بات ہے کہ پاکستانی عوام کے دل میں ایسی شخصیات موجودہ سیاست دانوں یا حکمرانوں کی کتنی عزت ہے؟آرمی چیف کے جانے پر پوری قوم اداس ہے کیونکہ آرمی چیف نے اس ملک کی سلامتی کے لیے خدمات سرانجام دی ہیں،جن کا تعلق بظاہر ملک کی اس ترقی کے ساتھ نہیں کہ جس کا فائدہ یہ حکومتیں اٹھاتی ہیں اور پھر اس ترقی کا تعلق عوام سے اس طرح کا ہے جیسے ایک طرف کوئی ٹوٹا پھوٹا مکان ہو اور دوسری طرف اونچے اونچے پلازے جگمگارہے ہوں۔مگر آرمی چیف کی خدمات کا تعلق صرف ملک کی سلامتی کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ہمارے حکمرانوں کو بھی پاکستانی عوام سے عزت کروانی ہے تو اپنی خدمات کا تعلق ملک کی سلامتی کے ساتھ جوڑنا پڑے گا۔ جنرل راحیل کے لیے میرے دو شعر ہیں…؎
جو احسان تیرے شمارہ کروں
میں گنتی دوبارہ دوبارہ کروں