روس اور گوادر کی بندرگاہ
گزشتہ دو سو برس سے روس دوسری بڑی طاقتوں کی طرح سمندروں پر حکمرانی کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ دنیا کے بڑے نامور فوجی حکمت عملی کے ماہرین کی رائے یہی رہی ہے کہ کوئی بھی ملک اس وقت بڑی طاقت نہیں بن سکتا جس کو خشکی کے ساتھ ساتھ سمندر تک رسائی نہ ہو۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں برطانیہ کو دنیا کے سارے سمندروں تک رسائی حاصل تھی فرانس کو بحر اوقیا نوس اور بحیرہ روم تک ہمیشہ سے رسائی حاصل رہی ہے۔ جرمنی اور سپین کو بھی سمندروں تک رسائی حاصل ہے امریکہ کو دنیا کے دو بڑے سمندروں کے ذریعہ دنیا بھر تک بحری راستوں کے فوائد حاصل ہیں۔ صرف روس ہی اپنے مخصوص جغرافیہ کی وجہ سے گرم پانی کی بندرگاہ سے طویل عرصہ تک محروم رہا ہے۔ گرم پانی کی بندرگاہ Warm Water Port تک پہنچنے کے لئے پچھلے دو سو سال میں روس نے بڑے جتن کئے ہیں۔ 1860ءمیں روس نے ویلاڈی واسٹوک کی بندرگاہ پر جب قبضہ کیا تو بھی روس کو وہ فائدہ نہیں مل سکا جس کا وہ متلاشی تھا۔ کیوں ویلاڈی واسٹوک چار ماہ تک برف کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ جغرافےے نے روس کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے روس ایک لینڈ لاکڈ Land Locked اور بعض صورتوں میں آئیس لاکڈ Ice Locked ملک ہے مغرب میں یورپ روس کے بحر اوقیانوس تک پہنچ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ جنوب میں ایران‘ افغانستان اور پاکستان بحرہ عرب تک روس کو پہنچنے سے روک رہے ہیں اور مشرق میں چین اور جنوبی کوریا روس کو بحیرہ جنوبی چین تک نہیں پہنچنے دیتے۔ پچھلی صدی جو سرد جنگ کی صدی تھی اس صدی میں سوویت یونین کے تمام حریف ممالک امریکہ‘ برطانیہ اور دوسری طاقتوں کو سمندروں تک بھرپور رسائی حاصل تھی جب کہ سوویت یونین اس عرصہ میں گرم پانی کی کسی بندرگاہ تک پہنچنے کے لئے بھرپور کوششیں کرتا رہا ہے۔ اپنی معاشی بالادستی اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے سوویت یونین جو اب ریشیئن فیڈریشن بن گیاہے کو گرم پانیوں کی ضرورت تھی۔ زار روس کے زمانے میں بھی کوششیں ہوتی رہیں کہ کسی گرم پانی کی بندرگاہ پر قبضہ کیا جائے اس زمانہ میں روس نے یوکرائن پر اس لئے قبضہ کیا تھا کہ اسے گرم پانی کی بندرگاہ مل سکے۔
ترکمانستان سے خبرآئی ہے کہ روس نے پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے روس کی اس خواہش کا خیر مقدم کیا ہے۔ پچھلی صدی میں سوویت یونین نے گرم پانیوں تک رسائی کے لئے پرانے خواب کی تکمیل کے لئے افغانستان پر فوج کشی کی تھی۔ 1979 ءمیں سرخ فوج افغانستان میں داخل ہوئی اور اس نے سردار دا¶د کا تختہ الٹ کر ایک غیر معروف افغان کمیونسٹ لیڈر نور محمد ترکئی کو کابل میں کمیونسٹ حکومت کا سربراہ بنا دیا۔ افغانستان میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان کی حکومت قائم ہو گئی۔ نور محمد ترکئی ایک کمزور حکمران ثابت ہوا تو ماسکو نے حفیظ اﷲ امین کو افغانستان کا نیا صدر بنا دیا۔ حفیظ اﷲ امین کے بارے میں ماسکو کو اطلاعات تھیں کہ وہ امریکہ کے قریب ہو رہا ہے تو اسے قتل کرا دیا گیا۔ حفیظ اﷲ امین کی جگہ ببرک کارمل کو افغانستان کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ببرک کارمل کو بھی بعد میں ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ ڈاکٹر نجیب اﷲ کو افغانستان کا سربراہ بنایا گیا۔
سوویت یونین کی فوج افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد بلوچستان تک آنا چاہتی تھی تاکہ وہ گوادر تک رسائی حاصل کر سکے اور یہاں سے وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب پورا کر سکے۔ پاکستان نے اپنے اتحادی ملکوں امریکہ ‘ یورپ اور عرب اسلامی ملکوں کے تعاون سے سرخ فوج کے خلاف جہاد کی بھرپور حمایت کی تاکہ سویت فوج افغانستان میں قدم نہ جما سکے۔ اگر افغانستان پر اس کا قبضہ مستحکم ہو جاتا تو پاکستان اس کا ا گلا ہدف ہو سکتا تھا۔ پاکستان کے راستے وہ بحیرہ عرب تک پہنچ سکتا تھا۔ افغانستان میں سویت فوج کو شکست ہوئی دس برس تک افغانستان میں خون ریز جنگ کے بعد سویت فوج 1989 ءمیں افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوئی۔ افغانستان پر حملہ ماسکو کو بہت مہنگا پڑا اس حملے کے نتیجے میں سویت یونین میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی۔ وسط ایشیاءکی مسلمان ریاستیں جو زار روس کے زمانے اور پھر کمیونسٹ انقلاب کے بعد جنہیں جبراً سویت یونین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ وہ آزاد ہو گئیں۔ ایک تیسری طاقت کے حصے بخرے ہو گئے۔
اکیسویں صدی میں دنیا بدل گئی ہے۔ دو سو برس تک گرم پانی کی بندرگاہ تک پہنچنے کی روسی کوششیں ناکام رہیں۔ اب پرامن انداز میں مفاہمت کے ساتھ روس پاک چین راہداری منصوبے میں شامل ہو کر گوادر کے ذریعے اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات کو فروغ دینا چاہتا ہے تو پاکستان کو اس کا خیرمقدم ضرور کرنا چاہئے۔ ویسے بھی اکیسویں صدی میں دنیا بدل چکی ہے۔ روس اور پاکستان تلخ ماضی کو فراموش کر کے اب حلیف بنتے جا رہے ہیں۔