• news
  • image

وزیراعظم کا پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سے شکوہ

وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر عہدے سے مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ مجھ سے استعفیٰ کا مطالبہ بلاجواز ہے۔ ہم نے استعفیٰ دینے کیلئے الیکشن نہیں لڑا۔ انتخابات میں کامیابی کے باوجود ہم نے اقتدار میں اقدار کو ترجیح دی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اور خیبر پی کے میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ میثاق جمہوریت ٹھیک نہیں چل سکا۔ پیپلزپارٹی 90ء کی سیاست کی طرف جارہی ہے جبکہ ایک جماعت ملک کو پیچھے لے جانا چاہتی ہے۔ ہم کسی کی خواہش پر ترقی کا سفر ادھورا نہیں چھوڑ سکتے۔ وزیراعظم کا پیپلزپارٹی سے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا شکوہ محل نظر ہے۔ پیپلزپارٹی بادی النظر میں ان کی ڈھال بنی ہوئی ہے۔ عمران، طاہرالقادری دھرنے کے دوران اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر میاں نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومت کو بچانے کیلئے بجاطور پر اپنا جمہوری کردار کیا۔ اب اگر پانامہ لیکس کے حوالے سے احتساب کیلئے ان کے مقابل ہے تو اس سے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا شکوہ کیسا؟ پیپلزپارٹی اصلاح احوال کیلئے اگر حکومت کو گڈگورننس کا مشورہ دیتی ہے تو اس پر تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔ احتساب کے حوالے سے تحریک انصاف کے مطالبے سے بھی یوں اختلاف ممکن نہیں کہ مسلم لیگ ن برسر اقتدار آنے کے بعد انتخابات میں عوام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ڈیلیور نہیں کر سکی جس کیلئے عوام شاکی ہیں کہ مہنگائی، کرپشن اور بیروزگاری پر ہنوز ان کی توقعات کے مطابق قابو نہیں پایا جا سکا۔ کشیدگی اور تنائو کے ماحول میں وزراء کے میڈیا میں اپوزیشن کو رگیدنے کے بیانات صورتحال اور معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑنے کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم اب بھی وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے پاس پالیسیاں درست کرنے کا وقت ہے۔ محض ترقی کے خوش کن اعلانات اور بیان بازی سے آئندہ الیکشن جیتنا مشکل ہو گا۔ موجودہ صورتحال برقرار رہنے سے انجام 2013ء میں پی پی جیسا ہو سکتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن