جنرل راحیل کا کرداروکارکردگی
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہردل عزیز آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا جاں نشین مقرر کردیا۔جنرل راحیل شریف واقعی بچوں بڑوں سمیت ہر پاکستان کیلئے یکساںقابل احترام ہیں۔ وہ سیاست سے دور رہ کر سیاست کو درست کرنے کیلئے کوشاں،کراچی سے جرائم پیشہ عناصر اور ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنے کیلئے سرگرداں رہے۔وہ ملک و قوم کے مفادات کیلئے اپنی اہلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے رہے۔انہوں نے نہ صرف دشمن اور دہشتگردوں کا اینٹ کا جواب پھولوں سے دینے کی روایت کو نہ صرف توڑا بلکہ اینٹ کا جواب اینٹ سے دینے کے بجائے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی روایت قائم کی۔انکے اسی اصول، عزم اور ارادے کو دیکھ کر دہشتگرد ملک سے بھاگ گئے اور دشمن بھارت خوفزدہ رہتاہے۔انکے کارنامے، کمالات، کردارو کارکردگی انکے جاں نشیوں کیلئے مشعل راہ اور مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہمارے ملک میں عموماً آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ آسان نہیں رہا۔ آج فوجی سربراہان کی تقرری وزیر اعظم کا احتیار ہے مگر مسلح افواج کے سپریم کمانڈر صدرہیں جو ایک ایک آئینی مہرہ بن کر رہ گئے ، اختیارات سے تہی دست ہیں… اور طرفہ تماشہ یہ کہ وزیراعظم نواز شریف ایسے شخص کو صدر کے طور پر لے آئے جن کو شاید اب بھی یقین نہیں کہ وہ صدر ہے۔جنرل راحیل شریف نے اپنی تین سالہ مدت بڑے وقار سے پوری کی۔ انکے اور انکے خاندان کے افراد کے بارے میں کوئی منفی بات سامنے نہیں آئی جبکہ انکے پیشرو کے بھائیوں کے اربوں کی کرپشن کے سیکنڈلز سامنے آئے اور معاملات نیب میں ہیں۔ کوئی کارروائی بھارت نے سرحدوں پر کی ہو یا دہشتگردوں نے سرحدوں کے اندر، جنرل ارحیل شریف نے ان کا منہ توڑ جواب دیا۔ انکی پالیسیوں اور اقدامات کے باعث اب بھی دہشتگرد اور سزا یافتہ جرائم پیشہ عناصر پھانسیوں پر چڑھائے جاتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی حصے میںکوئی نلتر جیسا حادثہ ہو، تخریب کاری کی واردات یا دہشتگردی کا واقعہ ہو، جنرل راحیل سب سے پہلے وہاں جا پہنچتے تھے۔ شہداء کے لواحقین کی ڈھارس بندھاتے اور زخمیوں کو حوصلہ دیتے۔ سانحہ اے پی ایس نے تو انکے اعصاب کو شل کر دیا اور اس کے بعد وہ تھے اور دہشتگرد تھے جن کا آج تک پاک فوج تعاقب کر رہی ہے۔ ڈیڑھ سو بچوں کی شہادت پر جنرل راحیل بھی جذبات قابو نہ رکھ سکے تھے۔پاکستان میں فوجی سربراہ کی تبدیلی کوئی خوشگوار فریضہ نہیں رہاہے۔ دیکھا گیا ہے فوجی سربراہ کو تعینات وزیراعظم کرتا ہے مگر آرمی چیف عموماً گھر اپنی مرضی سے جاتا ہے ۔کئی تو خود مقتدر اور خود کو آرمی چیف بنانے والے ہی کو گھر بھجوا دیتے ہیں۔ پاکستان میں کم از کم تین بار تو ایسا ہو چکا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا موقع آیا تو حکومت کی بھی نظریں ان پر لگی تھیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے نہ صرف حکومت بلکہ پوری دنیا کو آگاہ کر دیا تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آئے تو بھی حکومت متذبذب ہو کر ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ان کی طرف سے گرین سگنل پر وزیراعظم نے سکھ کا سانس لیا اور انکے دل میںلڈو پھوٹتے واضح طور پر اس وقت نظر آئے جب جنرل راحیل شریف کو وزیراعظم ہائوس میں الوداعی عشائیہ دیا گیا۔ جنرل راحیل نے خود ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا اس بات میں وزن اس لئے ہے کہ خود انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ قومی مفاد میں کیا جبکہ فوج کے بارے میں شدید اور متشدد جذبات رکھنے والے وزیر جن کو خوش قسمتی یا بدقسمتی سے وزیر دفاع بھی بنایا گیا ہے انہوں نے بھی کہا تھا کہ جنرل راحیل نے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر کے اچھی روایت قائم کی۔ میاں نواز شریف نے مشرف کو جس برے طریقے سے سیک کرنے کی کوشش کی اور اس کا خمیازہ مشرف کی طرف سے آئین شکنی کی صورت میں بھگتنا پڑا اس سے فوج اور نواز شریف کے مابین ایک غلط فہمی پیدا ہو گئی جو اب جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ سے قبل جا کے دور ہو سکی ہے۔ جنرل راحیل کی کمانڈری کے دوران کا یہ واقعہ فوج اور وزیراعظم ہائوس کے درمیان غلط فہمی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے کہ شروع کے دنوں میں فوج دہشتگردی کیخلاف کارروائیاں کر رہی تھی اور نوبت ضرب عضب تک آ گئی تھی تو جنرل راحیل، ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ وزیراعظم ہائوس میں میٹنگ کیلئے گئے۔وزیراعظم کی طرف سے دو تین بار بیل بجانے پر چپڑاسی نہ آیا تو شہباز شریف نے باہر جا کر دیکھا، دروازے پر فوجی بندوق تھامے کھڑا تھا۔ شہباز شریف واپس آئے اور تشویش کا اظہار کیا تو ان کو بتایا گیا فکر کی بات نہیں۔ یہ لوگ ہماری سکیورٹی کیلئے آئے ہیں۔ اس واقعہ کی حکومت نے کبھی تردید نہیں کی۔فوجی سربراہان کی تقرری جمہوری حکومت کا اختیار ہے۔ حالات ایسے ہی ہونے چاہئیں کہ وزیراعظم اس اختیار کو بغیر کسی دبائو کے استعمال کریں۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کہتے ہیں کہ اختیارات کو پنڈی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرف کو جس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اس سے بھی زیادہ بھیانک انداز میں ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گل حسن کو سیک کیا تھا۔ سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو، آرمی چیف جنرل گل حسن کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ گل حسن کو جی ٹی روڈ کے ذریعے کار پر لاہور روانہ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک اعلیٰ میٹنگ میں شرکت کرنا ہے اور پیشکش کی گئی کہ گورنر اور ایک وزیر کیساتھ لاہور چلے جائیں۔ پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر تھے۔ کار میں یہ دونوں صاحبان جنرل کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ ایک گھنٹے تک گل کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ جبری حراست میں ہیں۔ جب شک کا اظہار کیا تو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں نے انکی پسلیوں پر پسٹل رکھ دئیے۔ گل حسن لاہور پہنچے تو ٹکا خان فوج کا چارج سنبھال چکے تھے۔ آج جنرل راحیل شریف کی جگہ جنرل قمر جاوید باجوہ لے چکے ہیں۔ ان سے قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ جنرل راحیل شریف کے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کیخلاف اقدامات کو جاری رکھیں گے۔بھارت کومسکت جواب دینا تو انکے پیشے کا بنیادی اور لاینفک حصہ ہی ہے۔