’’خواتین پر تشدد کا عالمی دن‘‘ یا اُن پر عالمی تشدد کا دن؟
قارئین خواتین پر تشدد کے حوالے سے اہم دن منایا گیا ہے جبکہ ہمیں آج دن تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ دنیا میں مختلف ایام کے ’’یوم‘‘ کیوں منائے جاتے ہیں؟ کیا دن منانے یا بتانے سے اس دن کی محض اہمیت واضح ہوتی ہے یا ان واقعات و حادثات کی بنیاد بھی ختم ہو جاتی ہے؟ یا ختم ہو سکتی ہے جو اس دن سے مربوط و منسلک ہوتے ہیں؟ قومی ہیروز کے یوم ولادت و رحلت ضرور منایئے کہ انکی ایک بنیاد ہوتی ہے‘ ایک وجہ ہوتی ہے بلکہ انہی کی حیات بخش حیاتِ روشن سے روشنی لیکر اقوام اپنی زندگی کے راستے متعین کرتی ہیں۔ یوم دفاع ضرور منایئے کہ یہ قوم کی رگوں میں خون ِ تازہ پیدا کرتا ہے مگر حقوق انسانی یا خواتین پر تشدد کا عالمی دن منانے کا سن کر تو دل مزید خون ہو جاتا ہے کیونکہ لمحہ موجود میں تمام ترس سائنسی ارتقاء کے باوجود انسان کے حقوق جس طرح پامال ہیں‘ اس کا تصور ہی محال ہے جبکہ خواتین پر جس قدر تشدد کیا جاتا ہے‘ اس حوالے سے تو اس یوم کا نام خواتین پر تشدد کا عالمی دن کے بجائے خواتین پر عالمی تشدد کا دن ہونا چاہئے۔ دنیا بھر میں گھریلو سطح سے لیکر بطورخاص جنگوں میں جس طرح عورتوں کو کبھی بطور ہتھیار‘ کبھی بطور ڈھال اور کبھی بطور استحصال استعمال کیا جاتا ہے‘ وہ ان پر تشدد کی بدترین قسم ہے۔ افغانستان‘ کشمیر یا فلسطین میں خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے‘ حیرت ہوتی ہے۔ عالمی ضمیر کیا ہوگیا ہے‘ لگتا ہے اسے سانپ سونگھ گیا ہے؟
قارئین! حقیقت یہ ہے کہ بات لمحہ موجود کی نہیں ہے‘ اس سے پہلے بھی دنیا بھر کی جنگوں میں بلکہ ازل سے لیکر اب تک خواتین کے ساتھ مردانہ معاشرہ جو امتیازی سلوک روا رکھتا آیا ہے یا رکھ رہا ہے یا ان پر تشدد کی اور ان کی تذلیل کیلئے جو جو اقسام وضع کر رہا ہے‘ اگر ہم ان کو نظرانداز بھی کر دیں تو بھی یہ ایک عام اور عام فہم سی بات ہے کہ تشدد کسی بھی انسان کی طرف سے کسی بھی انسان پر ہو‘ اس کا جواز یقینا کوئی جرم ہوتا ہے اور تو اور پولیس جیسا محکمہ بھی جسکے ظلم و ستم کی دہشت و وحشت سے عوام سے لیکر خواص تک تھرتھر کانپتے ہیں‘ ہمارے خیال میں وہ بھی جھوٹ یا سچ کسی بھی قسم کا جرم سامنے آنے پر ہی اپنا عمل اور ردعمل شروع کرتا ہے‘ لیکن صد افسوس کہ عورت وہ واحد بے بس مخلوق ہے جس پر تشدد کا جواز اس کا بجائے خود محض عورت ہونے کا جرم ہے ہر روز ملک بھر کے اخبارات ایسے اعدادوشمار سے بھرے ہوتے ہیں جس میں تشدد کیلئے عورت کا محض عورت ہونا ہی ثابت ہوتا ہے اور کافی ہوتا ہے۔ ایک محدود اندازے کے مطابق پچھلے دو تین سالوں میں باتصویر کہانیوں کے مطابق اب تک تقریباً پندرہ سو عورتوں کو آگ لگا کر دردناک موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کاروکاری جیسی وحشت ناک خود ساختہ رسم کے تحت درجنوں بے قصور دوشیزائوں کو ہلاک کیا گیا۔ گینگ ریپ کے نتیجے میں سینکڑوں خواتین جانورانہ انداز میں قتل کی گئیں۔ چولہا پھٹنے کے نام پر اور خلع لینے کی خاطر عدالت میں آنے والی لاچار عورتوں کو برسرعام ذبح کرنے کے واقعات‘ گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلنے جیسے کھیلوں کی طرح عام ہیں جبکہ دس یا نو سالہ کچی کلیوں جیسی بچیوں کو آئندہ عورت بن جانے کی سزا بہت پہلے دیکر ادھر ادھر گلیوں میں کاٹ پھینکنے کی بات تو کسی شمار قطار ہی میں نہیں رکھی جاتی۔ رہ گئیں نام نہاد غیرت کی خاطر قتل ہو جانے والی خواتین یا وہ قتل جو اپنی نام نہاد عزت کو بچانے کی خاطر چھپائے جاتے ہیں تو وہ زیادہ تر پرنٹ میڈیا پر جانے سے پہلے ہی ختم کردیئے جاتے ہیں۔ قارئین اگر ہم عورتوں کے اس تمام قتل و غارت کا حساب کرنے بیٹھیں تو یہی یقین کرنے پر ہمیں بہت زور لگانا پڑیگا کہ ہم ایک اسلامی معاشرہ میں رہ رہ ہیں۔ ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں زیرحراست خواتین کی … بے حرمتی‘ گھر کی جائیدا گھر میں رکھنے کی خاطر بچی کی قرآن سے شادی‘ مطلقہ عورتوں سے جہیز اور بچے چھین لینا‘ بیوی کے ہاتھوں طلاق کا کاغذ بھیجنا‘ انکے چہروں پر تیزاب پھینک کر اندھا کر دینا جیسے جرائم روزمرہ کے طورپر رائج و جاری ہیں اور لطف یہ ہے کہ ان سرخ مظالم میں سے اکثر کی کسی کو کان و کان خبر ہی نہیں ہوتی یا وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جو چیز روٹین میں جائے‘ اسکی خبر نہیں بنتی۔ بہرحال قارئین اب آیئے بات کریں اس تشدد اور زخمیوں کی جن کی تصور لینے کیلئے کسی موجد نے ابھی تک کوئی کیمرہ ایجاد نہیں کیا۔ نہ ہی ان کی پراسرار تعداد کو کسی شمار قطار میں رکھا جاتا ہے۔ وہ ہیں عورتوں پر جذباتی‘ نفسیاتی‘ ذہنی اور روحانی تشدد کے گھجے چرکے۔ اسکے باوجود آپ کو وہ عورت ہنستی ہوئی اور میک اپ زدہ نظر آئے گی کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو شاید مرنے سے بہت عرصہ پہلے مر جائے۔ زندگی کے نام پر موت سے سمجھوتہ صرف عورت ہی کر سکتی ہے۔ قارئین ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ مندرجہ بالا سب کچھ کرنیوالے یہ لوگ کون ہیں؟ کیا ہیں؟ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ ان میں سے ہم نے آج تک کسی ایک بھی قاتل اور عالم کی تصویر اخبار میں نہیں دیکھی نہ ہی سنگسار ہوتے دیکھا یا سرعام جسے آگ میں جھونکا جا رہا ہو؟ اس کا مطب ہے مردانہ معاشرہ پہلے انہیں مدتوں تک بیان بازی‘ دلیل سازی اور زبان درازی کی مہلت دیکر شعلہ ریز مسئلہ کو برف زدہ کرنے کا موقع مہیا کرتا ہے پھر رہا کرا دیتا ہے۔ اندھا قانون مسلسل محو تماشا اور بے حس و بے ضمیر معاشرہ ایک لمبی پراسرار چپ میں مبتلا رہتا ہے۔ ان حالات میں یہ سوچ آتی ہے کہ شاید انصاف اور قانون کے مذکر الفاظ محض مرد کے مفاد کیلئے ہیں اور ناانصافی کا مونث لفظ عورت کیلئے بچ گیا ہے۔ ذاتی طورپر ہمارے ذہن میں اس ساری خون آلود صورتحال کا ایک ہی حل موجود ہے کہ بہتر ہے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دینے والی رسم کو دوبارہ زندہ کیا جائے کیونکہ اگر ہم ذہنی طورپر نورنبوت کے طلوع ہونے سے پہلے والے کالے دور میں رہ سکتے ہیں تو کیا حرج ہے جسمانی طورپر بھی ان رسوم کو اپنا لیا جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ خود عورت ہی کو پہنچے گا کیونکہ ایک نوزائیدہ بچی کا گلہ گھونٹ کر ہلاک کرنے میں اسے محض ایک لمحے کی اذیت برداشت کرنی پڑے گی جبکہ تیس پینتیس سالہ زندہ شعور اور احساس رکھنے والی بھرپور عورت کو مسام مسام جلنے‘ ایڑیاں رگڑنے اور خون و پیپ پھینکنے سے لیکر کوئلہ بن جانے تک پچیس دن لگتے ہیں۔ دوسرا حل اسلامی شرعی سزائوں کا نفاذ ہے جوکہ مغرب زدہ لوگوں کو پسند نہیں ہے۔ خدا کرے جلد سے جلد ان سزائوں پر عملدرآمد شروع ہو اور معاشرے کی حالت سنورے۔