پیشرو کا جانشین اور امپائر کی انگلی
الحمداللہ۔ آج عسکری قیادت کی تبدیلی سے قوم کو امپائر کی انگلی اٹھتی دکھانے والے سیاسی، دینی قائدین اور دوسرے مخصوص حلقوں کی ساری امیدیں اور سازشیں خاک میں مل گئی ہیں اور اب آئین کی پاسداری اور جمہوریت کے استحکام کے امید افزاءنئے سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کا بائیکاٹ ختم کر دیا ہے تو اس تابعداری کا احساس تحریک انصاف کی قیادت کو اس حقیقت شناسی کی بنیاد پر ہی ہوا ہو گا کہ اب ان کی دال نہیں گلنے والی۔ اب یا تو عمران خان کو اگلے انتخابات میں اپنی پارٹی کےلئے کچھ حاصل کرنے کی خاطر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں فعال کردار ادا کرنا ہو گا یا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے گھر بیٹھنا ہو گا کیونکہ اب چور دروازوں سے اقتدار کے کوریڈورز میں داخل ہونے کے سارے امکانات معدوم ہو چکے ہیں اور انتخابی عمل ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر اقتدار کی منزل کا خواب دیکھا اور شرمندہ¿ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اب امپائر کی انگلی صرف کھیل کے میدان میں اٹھ سکتی ہے، سیاست کے میدان میں ہرگز نہیں۔ شکریہ جنرل راحیل کہ آپ نے امپائر کی انگلی آپ کی ذات سے منسوب کرنے والوں کو مکمل مایوس کیا۔ آج آپ افواج پاکستان کی روایتی تلوار اپنے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کر رہے ہیں تو اس تلوار کے ساتھ آئین کی پاسداری اور صرف پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لئے آپ کی قائم کی ہوئی درخشاں روایت بھی نئے آرمی چیف کو منتقل ہو جائے گی جو ایک قسم کا قومی پرچم ہے جو کوئی سپہ سالار میدان جنگ میں کسی بھی محاذ پر سرنگوں ہونے دیتا ہے نہ گرنے دیتا ہے۔ سو اب نئے سپہ سالار کی جانب سے آئین کی پاسداری اور خالصتاً اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لئے تھاما گیا پرچم سربلند رہے گا اور وہ امپائر کی انگلی جیسی کسی اشتہاءسے اس میں کوئی جھول پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ عساکر پاکستان بشمول سپہ سالار نے آئین کے تھرڈ شیڈول میں دیئے گئے حلف کی عبارت من و عن پڑھ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا عہد کیا ہوتا ہے تو ان کے حلف کی یہ عبارت ان سے آگے پیچھے، دائیں بائیں جھانکنے کی متقاضی نہیں ہوتی اور یہ عبارت انہیں آئین کی پاسداری کی بھی پابند کرتی ہے۔ ہمارے سابق صدر مملکت آصف زرداری صاحب نے ان کے بقول، اپنی حکومت اور سسٹم کو بچانے کیلئے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف کے منصب پر دوسری ٹرم کیلئے توسیع دی مگر آج سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خود توسیع نہیں لی اور اپنی آئینی ٹرم پوری کر کے عساکر پاکستان کی کمان وزیراعظم کے نامزد کردہ آرمی چیف کے حوالے کر دی۔ تو کیا اس سے میاں نواز شریف کی حکومت اور جمہوری نظام کمزور ہوا یا مضبوط؟ میرے خیال میں اب زرداری صاحب کو بھی ادراک ہو چکا ہو گا کہ سسٹم کو کسی آرمی چیف کو دوسری ٹرم کیلئے توسیع دے کر نہیں بلکہ آئین کی پاسداری کے تقاضے نبھا کر ہی مضبوط کیا جا سکتا ہے اور اب یہ حقیقت سسٹم سے وابستہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو پلے باندھ لینی چاہیے کہ سسٹم کو انہوں نے آئین کی پاسداری کے تقاضے نبھا کر ہی مضبوط اور مستحکم کرنا ہے۔ آپ کے ذہنوں میں سسٹم کے خلاف امپائر کی انگلی اٹھوانے والی کوئی شرارت اٹکھیلیاں نہیں کرے گی تو کسی کے ذہن میں یہ انگلی اٹھانے کی کوئی سوچ تک پیدا نہیں ہو گی اور سسٹم خراماں خراماں چلتا آپ کیلئے ”شیر خرموں“ کا اہتمام کرتا رہے گا۔ اس لئے کسی کے مال پر رال ٹپکانے کے بجائے سسٹم کے ثمرات کو اپنے اور قوم کیلئے کارآمد بنا لیں۔
اس کیلئے ایک اچھا سبق جنرل راحیل شریف نے پڑھا دیا ہے کہ وہ ماورائے آئین اقتدار کی ممکنہ فیوض و برکات کی کسی اشتہاءسے مرعوب ہوئے نہ ان کے دل میں کوئی لالچ پیدا ہوا، بس انہوں نے خوش فہموں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور ان کی اُبھاری جانے والی کسی اشتہاءپر بھی ان کی حوصلہ شکنی نہ کی مگر انہوں نے آئین کی پاسداری کیلئے اپنے دل میں جو عہد کر رکھا تھا، اسے نبھا کر دکھایا۔ اپنی آئینی ٹرم پوری ہونے سے 9 ماہ پہلے ہی ٹرم میں توسیع نہ لینے کا اعلان کیا اور پھر اشتہاءدلانے والوں کی اچھل کود کے مزے لیتے رہے۔ جب ماورائے آئین اقدام کیلئے ان کی ٹھاٹھیں مارتی امنگوں کی باچھیں کھلنے لگیں تو جنرل راحیل نے اپنے ادارے میں الوداعی ملاقاتوں کا آغاز کر کے خوش گمانوں کو ناامیدی کی اتھاہ گہرائیوں کی جانب دھکیل دیا۔ اب کہیں عمران خان کا ”کچیچیاں“ بھرتا چہرہ نظر آتا ہے نہ شیخ رشید کی زمین و آسمان کے قلابے ملانے والی زبان درازی کی کہیں جھلک دکھائی دیتی ہے اور اب تو کینیڈین مولانا کی آنیاں جانیاں بھی کہیں نظر نہیں آرہیں۔ شاید ان کے پاﺅں کے ساتھ ساتھ ان کی سوچوں میں بھی ”موچ“ آگئی ہے۔
بھئی اب آپ جنرل قمر جاوید باجوہ کو اشتہاءدلانے والی اچھل کود نہ شروع کر دیجئے ورنہ اب آپ کی بل کھاتی کمر بھی ٹیڑھی ہو جائے گی کیونکہ جنرل باجوہ آپ کو ٹرک کی بتی کے پیچھے ہرگز نہیں لگائیں گے۔ بس آپ کے کرنے کا کام اب یہی ہے کہ آپ اپنے مینڈیٹ کے تقاضوں کے مطابق پارلیمنٹ میں بیٹھ کر دلجمعی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے جائیے اور اپنی بڑھوائی گئی تنخواہوں اور دوسری مراعات کو حلال بھی کر لیجئے۔
اور پھر یہ بات بھی آپ پلے باندھ لیجئے کہ آئین کی پاسداری والی حکمرانی میں حکمرانوں کو شتر بے مہاری سے آپ نے ہی روکنا ہے۔ ان کے پاﺅں زمین پر آپ نے ہی قائم رکھوانے ہیں اور سسٹم کے ثمرات اس سسٹم کی بنیاد عوام تک پہنچانے کیلئے آپ نے ہی حکمرانوں کو مجبور کرنا ہے۔ اب امپائر کی انگلی اٹھنے کے خطرے سے محفوظ ہونے والے حکمرانوں کو اپنے ذہنوں میں سول آمریت کا خناس پالنے سے آپ نے ہی روکنا ہے۔ اگر آپ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے بائیکاٹ کی سیاست کھیلتے رہیں گے تو پھر حکمرانوں کیلئے روک ٹوک والا کوئی خطرہ بھی موجود نہیں رہے گا۔ وہ جو چاہیں گے، سیاہ و سفید کے مالک بن کر کرتے رہیں گے جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف کے اشک آباد والے خطاب میں ان کے لب و لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا۔ تو حضور والا! اب آپ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے خواتین و حضرات ہی کو سسٹم کو چلائے رکھنے کے لئے بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اور قائدین حکمرانوں کی من مانیوں کو ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ عوام کی عدالت میں لے کر جائیں گے اور ان کے بالخصوص روٹی، روزگار، غربت، مہنگائی کے مسائل کے حل کا حکمرانوں سے بہتر منشور پیش کریں گے تو عوام کی عدالت انتخابات کے مراحل میں حکمرانوں کے خلاف پیش کی گئی ٹھوس گواہیوں کی بنیاد پر آپ کے حق میں فیصلہ دے کر آپ کو اقتدار کیلئے سرخرو کر دے گی۔ بس یہ یقین کر لیجئے کہ اقتدار کی منزل حاصل کرنے کا یہی آئینی، قانونی، سیاسی اوراخلاقی راستہ ہے۔ امپائر کی انگلی اٹھوانے سے تو کاروانِ جمہوریت کا سارا سفر کھوٹا ہو جاتا ہے۔