اور زمانہ آج گوادر کو دیکھ رہا ہے
ساری دنیا پاکستان کو دیکھ رہی ہے، مچھیروں کی بستی گوادر مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے زار روس کا خواب ”گرم پانیوں تک رسائی“ کا سپنا جو سوویت قیادت کو ورثے میں ملا تھا جس کے لئے ہولناک افغان جنگ لڑی گئی لاکھوں افغان دربدر ہو گئے، جہاد اور شہادتوں کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں لیکن کمیونسٹ آنجہانی سوویت یونین کا ادھورا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ سرخ فوج کو افغانستان میں بے نیل و مرام ذلت آمیز پسپائی کا داغ برداشت کرنا پڑا اس کے نتیجے میں گورباچوف نے گلاناسٹ کا فلسفہ پیش کرکے کمیونسٹ روس کی طفیلی ریاستوں سے جان چھڑا لی جس پر ہمارے امریکی ٹوڈیوں نے فتح کے گیت گائے، پُرجوش ترانے بجائے اور پٹرول پمپ الاٹ کرائے، قوم کو بھوک اور افلاس کے اندھیروں میں دھکیل کر اپنی نسلوں کا مستقبل سنوار لیا۔
تم نے ڈھاکہ دیا ہم نے کابل لیا
ٹوٹے شملہ کی زنجیر
اب ہم لیں گے کشمیر
سستی جذباتیت کے سہارے قوم کا مورال بلند کرنے کی احمقانہ کوششیں کب بارآور ہو سکتی ہیں، آج ہم خود روس کو گرم پانیوں تک رسائی جذبہ خیر سگالی کے تحت دے رہے ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کو شامل کرنے اور تجارتی مقاصد کے لیے گوادر کی بندرگاہ تک رسائی ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے جس نے عالمی سطح پر دوستی اور دشمنی کی پرانی صف بندیوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ روسی عظیم عالمی طاقت کی گرم پانیوں تک رسائی کی صدیوں پرانی حسرت کی تکمیل سفارتکاری جدید تاریخ کا ششدر کر دینے والا واقعہ ہے بلکہ پچھلی دہائی کے آخری عشروں میں افغانستان پر سوویت یونین کی فوج کشی کا بنیادی ناتمام مقصد بھی یہی تھا۔
یہ بالغ نظر روسی قیادت کا کمال ہے جس نے اس تلخ تجربے سے سبق سیکھا، وسط ایشیائی ریاستوں کو آزادی دی اور محض فوجی طاقت بڑھانے کے بجائے روسی مملکت کو ازسرنو مستحکم کرنے، ذمہ دار جمہوری اصولوں کو فروغ دیا، اقتصادی ترقی اور تجارتی روابط کو وسیع کرکے اپنی پڑوسی ریاستوں سے خوشگوار تعلقات قائم کر لئے جس کے نتیجے میں آج روسی ریاست دوبارہ پھر ہر اعتبار سے دنیا کی بڑی طاقت ہے۔
پاکستان اور چین سے بھی روس کے تعلقات کئی دہائیوں تک کشیدہ رہے لیکن نہ صرف روس بلکہ چین اور پاکستان نے بھی اس حقیقت کو سمجھا کہ قوموں کی ترقی کے لیے تصادم اور تناو¿ کے بجائے مفاہمت اور تعاون ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سی پیک ایسا عظیم منصوبہ تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے جو نہ صرف جنوبی و وسطی ایشیا بلکہ آدھی دنیا کو سرگرم اقتصادی اور تجارتی روابط میں منسلک کر رہا ۔ یہ اسی درست حکمت عملی کا ثمر ہے کہ روس کی گرم پانیوں تک رسائی کا ادھورا خواب عشروں بعد جنگ و جدل کے بجائے امن، دوستی اور تعاون سے شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔
پیارے پاکستان کی سرزمین جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے تاریخ کے ہر دور میں تجارتی راہداری رہی ہے۔ تاریخی شاہراہ ریشم کا نیا جنم اِس قدر پُرشکوہ ہے کہ بدخواہوں کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں۔ پاکستان سی پیک کی وجہ سے نئی شان و شوکت اور جاہ و جلال سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہو رہا ہے۔ پاکستان کی تنہائی کے ڈراو¿نے خواب بننے والے شاطر امریکی تلملا رہے ہیں اور انکے پاکستانی بغل بچے کھسیانی بلی کی طرح کھمبے نوچ رہے ہیں، دریدہ دہن مودی سے عمران پرتاب گڑھی جیسے بیباک شاعر خوشنوا پوچھ رہے ہیں ”کشمیر سنبھالا نہیں جاتا کیوں بلوچستان کی بات کرتے ہو؟“
بھارتی نیتاو¿ں کو بھی عقل کے ناخن لینا پڑیں گے کہ وہ کشیدگی اور تصادم کے بجائے مفاہمت اور تعاون کا راستہ اختیار کرکے اپنے عوام پر خوشحالی کے راستے کھولیں، نفرت اور تشدد کی سیاست سے تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پیوٹن اس معاملے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اب روس برآمدات و درآمدات اور عالمی تجارت کیلئے سارا سال بروئے کار گوادر بندرگاہ کو استعمال کریگا۔ چین کی طرح روس کو مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈی تک پہنچنے کیلئے اب بہت کم فاصلہ طے کرنا پڑےگا۔ روس نے اس منصوبے میں دلچسپی کا اظہار بہت پہلے کیا تھا مگر اس پر سنجیدگی سے غور و خوض چند ہفتے پہلے روس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے دورہ اسلام آباد کے دوران ہوا، جس میں ناصرف دفاعی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے پر بات ہوئی بلکہ 46 ارب ڈالرز کے اس منصوبے میں شمولیت کے طریقوں پر بھی بحث و مباحثہ ہوا۔ سی پیک میں شامل ہونے سے اب روس کے کم ترقی یافتہ ایشیائی علاقوں کو پاکستان کے راستے دنیا کی بڑی بڑی منڈیوں تک ایک آسان رسائی مل جائے گی۔گرم پانیوں کا خواب ہر روسی حکمران اس لئے دیکھتا تھا کہ انکے سمندروں میں صرف گرمیوں کے چار سے چھ ماہ بحری تجارت گو سکتی ۔ یہ سردی میں یہ منجمد ہو کر بیکار ہو جاتے ہیں۔ بحری تجارت کے عالمی ماہر ناصر حسنین ملک نے جوانی عرب شپنگ کارپوریشن میں گزاری ہے وہ بتاتے ہیں کہ بندرگاہیں اصل میں خوشحالی کی بحری شاہراہیں ہوتی ہیں ہمارے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود سرکاری یا نجی شعبے میں بحری جہاز چلانے کی استعداد نہیں ہے ۔
روس کا گرم پانیوں خصوصاً بحیرہ عرب تک پہنچنے کا خواب صدیوں پرانا ہے۔ 18ویں صدی کی زاروں کی روسی سلطنت نے وسطی ایشیا پر قبضہ بھی اپنی اسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کیا تھا، 20ویں صدی کے اوائل میں ایران پر اثر و رسوخ اور افغانستان پر اپنے حواریوں کے قبضہ کے پس پردہ بھی یہی ادھورا خواب کارفرما تھا۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد سوویت سربراہ بھی اسی مہم جوئی میں مصروف رہے۔ نئے نئے علاقوں کو فتح کرنے کی ہوس سے سوویت یونین کو آزاد دنیا کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ دسمبر 1979ءمیں کابل میں ببرک کارمل کی حکومت کے قیام کے بعد امریکہ نے افغانستان سے سوویت یونین کو نکالنے کیلئے ایک دہائی تک جنگ کی آگ دھکائی، جس کا ایندھن بننا ہمارے مقدر میں لکھا تھا۔ 1989ءمیں سوویت یونین افغانستان سے مکمل طور پر نکل گیا اور سوویت یونین کے ٹکڑے ہو گئے، دو درجن کے قریب نئے ممالک نے اس کی کوکھ سے جنم لیا، اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی بچنے والے وفاق روس کا رقبہ کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ (جاری)
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ واحد سپر پاور بن گیا لیکن گورباچوف کے بعد تمام روسی حکمرانوں نے روس کے پرانے دبدبے بحال کرنے کو مقصد زندگی بنا لیا جسے درویش صفت پیوٹن نے مجسم کر دکھایا، اس کیلئے انہوں نے دوبارہ بین الاقوامی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں روس بشار الاسد کا حامی ہے لیکن پاکستان کے سلسلے میں روس کی پالیسی میں واضح تبدیلی کے بعد سب کچھ جنگ نہیں بلکہ پیار محبت سے ہو رہا ہے۔ حال ہی میں شمالی علاقوں میں پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں، بھارت نے پاکستان دشمنی میں یہ مشقیں رکوانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر روس نے فیصلہ نہ بدلا۔
دسمبر میں ماسکو میں افغانستان کے مسئلے پر سہ فریقی مذاکرات میں پاکستان، چین اور روس حصہ لیں گے، اس میں بھی بھارت کو شامل نہیں کیا جا رہا، اس طرح خطے کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں، جس کی وجہ سے چین اور روس کو امریکی بے توجہی کی وجہ سے پیدا ہونیوالے خلاء کو پُر کرنے میں مدد ملے گی، خصوصاً پاکستان کی جغرافیائی حیثیت مزید ابھر کر سامنے آئے گی۔
پاکستان کا روس کو گوادر پورٹ منصوبے میں شامل کرنے سے نہ صرف تجارتی و معاشی طور پر اہم ترین نوعیت کا معاملہ ہے بلکہ اس سے خارجہ پالیسی میں تبدیلی اور خطے میں نئے تعلقات کے ایسے دور کا آغاز ہو گیا ہے کہ ماضی کے حریف آج حلیف بن چکے ہیں مودی سمیت شاطر و عیار امریکی بُری طرح پیچ و تاب کھاتے ہیں۔
ماضی کے حلیفوں کو شاید یہ پسند نہ ہو لیکن بہرحال اب یہ ایک حقیقت کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔ اس معاہدے سے روس کی گرم پانیوں تک رسائی کا دیرینہ خواب پورا ہوگا تو دوسری جانب پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی اور فوجی نوعیت کے تعاون میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ روس اور پاکستان کے درمیان سٹرٹیجک و معاشی تعلقات میں 14 سال بعد اہم پیشرفت ہوئی ہے اور روسی انٹیلی جنس فیڈرل سیکورٹی سروسز (ایف ایس بی) کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنی کوو نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا تھا۔
گزشتہ دنوں گوادر سے 100 کنٹینرز کے قافلے کے بحفاظت مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک پہنچنے کے بعد دنیا کے خدشات دور ہوچکے ہیں۔ پاکستان، ترکمانستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے گیس پائپ لائن معاہدہ بھی موجود ہے تاہم خطے کے حالات اس معاہدے پر عملدرآمد میں ہنوز مانع ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے ترکمانستان میں کہا ہے کہ کئی ملک سی پیک میں شمولیت کے خواہشمند ہیں جس سے آدھی دنیا مستفید ہو گی۔ وزیراعظم نے جنوبی وسطی ایشیا کو سڑک اور ریل کے ذریعے ملانے کے منصوبے کا بھی عندیہ دیا۔
سی پیک اور جنوبی وسطی ایشیا کو سڑک اور ریل کے ذریعے ملانے کے منصوبوں سے دنیا کا یہ حصہ کس قدر باہم مربوط ہوگا یہ ڈراو¿نے خواب بن کر بدخواہوں کو ڈرا رہا ہے۔ سی پیک میں روس اور برطانیہ کی شمولیت اور ترکی کی دلچسپی کے بعد یہ خطہ یورپ تک وسعت پا جائے گا۔
برطانوی وزیر خارجہ بورِس جانسن نے پاک چین اقتصادی راہداری کو شاندار منصوبہ قرار دیتے ہوئے برطانوی کمپنیوں کا اس کی تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اب قدیم شاہراہ ریشم بحالی اور مشرق کو مغرب سے ملانے والے تجارتی قافلوں کی راہ گذر کا نیا جنم قرار دیا جا رہا ہے۔
2 کروڑ 30 لاکھ آبادی والا کراچی دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ کراچی بہت جلد سنگاپور اور شنگھائی کی طرح ایشیا کے بڑے تجارتی مراکز میں شامل ہونے جا رہا ہے
گوادر نے ترکمانستان کے ساتھ زمینی و ہوائی روابط قائم کر کے چترال سے تاجکستان اور ترکمانستان، ازبکستان، کرغستان، قازقستان، روس تک زمینی راستے سے باہم مربوط کردیا ہے۔
حرف آخر یہ کہ جنرل راحیل شریف کی باوقار رخصتی پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور آنے والے زمانوں شاید یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن ایک مہربان ہارون شاہ نے راجپوت سرداروں کے اس سپوت کا ماضی اور حال تین جملوں میں سنو دیا ہے اپ بھی ملاحظہ فرمائیں
"ٹین کا بکس لے کر 18 نومبر 1974 کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کے گیٹ سے داخل ہونے والے ، جنٹل مین کیڈٹ نمبر 14538 راحیل شریف نے 29 نومبر 2016 تک فوج کے دوران سروس میں ملنے والے، ایک رہائشی پلاٹ‘ ایک کمرشل پلاٹ اور زرعی زمین ، اپنے ٹین کے بکس سے نکال کر مبلغ 8 کروڑ روپے میں بیچ کر، پاکستان آرمی کے شہداء کے فنڈ میں فی سبیل اللہ دے دیئے!"
ہے کوئی جو اس جرنیل کی پیروی کرے‘ اسکے چھوڑے روشن نقوش پر چلے ہم تو اس پر طعن توڑنے کیلئے ادھار کھائے بیٹھے ہیں چند سیاہ رو چڑی مار تو میدان میں آبھی چکے ہیں۔