درہ خیبر، پاکستان اور نئے آرمی چیف
گوجرانولہ کو مرکز بنا کر شُکر چکیہ مِثل کا قیام کرنے والے سردار چڑت سنگھ شُکھر چکیہ تھے ۔ جنہوں نے سب سے پہلے گریٹر پنجاب کو باہری لُوٹ مار سے بچانے کی تحریک چلائی۔ یہ وہ دور تھا کہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب یعنی شمالی پاکستان اور کشمیر کا کوئی گاﺅں حتیٰ کہ فرد ایسا نہ تھا جو ایک سال میں کئی مرتبہ افغان لٹیروں کے ہاتھوں لُوٹا نہیں جاتا تھا۔ پنجاب کی باروں میں ایک اکھان (محاورہ) زبان زدِ عام تھا کہ ©©" کھانا پینا لاہ دا جو بچیا احمد شاہ دا ”(یعنی جوکھا پی لو وہی منافع ہے باقی سب تو احمد شاہ ابدالی لوٹ لے جائے گا)۔ اس سلسلہ میں اُس سِکھ سردار نے گروﺅں کے زمانے کے اختتام کے بعد ادھِر اُدھر بکھِر چکے جنگجو سکھوں کو یکجا کیاسکھ لڑا کا سرداروں اور مذہبی گیانیوں کو ایک لپیٹ فارم پر اکٹھا کرکے اُن میں گریٹر پنجاب کے عوام کو بیرونی حملہ آوروں اور غارت گروں کے فتنوں سے نجات دلانے کی سوچ پیدا کی۔ انہیں کوشش کے پھل سُروپ "خالصہ پنتھ" کا قیام عمل میں آگیا ۔ جسکو مرکزی طاقت مان کر سکھ سرداروں نے اپنی اپنی مثالوں کو خود مختار رکھتے ہوئے دفاعی اتحاد کر لیا اور اپنے علاقوں اور عوام کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدام اٹھانے شروع کر دئیے ان سب سرگرمیوں کی کمانڈ غیر اعلانیہ طور پر سردار چڑت سنگھ ہی کرتے رہے۔ انہوں نے پہلی سٹیج پر گوجرانوالہ میں ایک کچا قلعہ قائم کیا جسکا مقصد افغان لٹیروں کے راستے میں ایک دفاعی چوکی بنا نا تھا ۔ اس قلعہ کے ذریعے غارت گروں کی نقل وحرکت پر نظر بھی رکھی جاتی اور ان کی پیش قدمی کی صورت میں مزاحمت بھی کی جاتی۔ کرتے کرتے چڑت سنگھ نے کئی لڑائیاں ہاریں کئی جیتیں مگر پنجاب کے میدان کو لٹیروں کے لئے ”میٹھی کھیر“ نہ رہنے دیا ۔
اسی جدو جہد میں سردار مذکور نے پنجاب کے مسائل پر غور کر کے نتیجہ نکالا اور ایک سنہری قول آنے والی نسلوں کے لئے امانت کر دیا کہ ”جب تک درّہ ئِ خیبرمقفل نہ ہوگا پنجاب میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا “ اس نتیجہ پر پہنچنے کے بعد گوجرانوالہ کے اس جاٹ سردار نے اپنا اوڑھنا بچھونا درّہئِ خیبر کا تحفظّ بنا لیا ۔ ان کے مشیروں اور دیگر سرداروں نے بہت کہا مگر جاٹ سردار اپنی بات کا پکا رہاکہ یہ وقت دہلی کے مغل حکمرانوں سے انتقام لینے کے لئے بہترین ہے مگر سردار کا فیصلہ یہی تھا کہ جب تک درّہ خیبر محفوظ نہیں اور کچھ بھی کرنے کا فائدہ نہیں۔ اور اس مقصد کے لئے سردار نے پاک صاف ہو کر رب کو یاد کر کے خاص دعائیں اور ارداسیں کروا کر ایک خاص تلوار ”کھنڈا“ کے نام سے خود تیار کروائی جسکو آج بھی سکھوں میں ”کھنڈا صاحب“ کے نام سے کہا جاتا ہے سردار چڑت سنگھ نے کھنڈا صاحب کو کمر سے باندھتے وقت یہ عہد لیا تھا کہ یہ تلوار اُس وقت تک نیام میں نہیں جائے گی جب تک درّہ خیبر محفوظ نہ ہو جائے۔ خالصہ پنتھ کے ایک سردار سردار جسّا سنگھ آلو والیہ نے سوال کیا کہ کیا یہ ممکن ہوسکے گا؟ تو چڑت سنگھ نے کہا تھا کہ " ضرور ہوگا۔ یہ ہو کر رہے گا اور جب تک نہیں ہوگا کھنڈا چلتا رہے گا اور اس کو چلانے والی اُنگلیاں بدلتی رہیں گی" ۔
بالا ٓخر چرٹ سنگھ کے بیٹے مہا سنگھ سے ہو کر پوتے مہا راجا رنجیت سنگھ کے ہاتھوں کھنڈا صاحب کے ذریعے درّہ ئِ خیبر محفوظ ہوا اور ہمارے پیارے وطن موجودہ پاکستان کے ان ہیروز کے ہاتھوں ایسا محفوظ ہوا کہ الحمُد اللہ آج تک محفوظ ہے مگر ہمارے قائدین ، سیاسی رہنماﺅں اور ماضی کے کچھ فوجی ڈکٹیٹروں کی نا عاقبت اندیشیوں کی بدولت پاکستان کے مغربی باڈر کو محفوظ سمجھ کر ہم نے زیادہ ہی بے فکری اور لاپرواہی اختیار کر لی ہے جسکو سدھارنے کی ضرورت ہے۔خود جنرل پرویز مشرف نے بھی تقریباً عشرہ بھر مسندِ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد بغیر عمل کئے بیرون ملک بیٹھ کر اگلے آنے والے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ "اگر وطن عزیز کا امن عزیز ہے تو مغربی باڈر کو سیل کر دیا جائے" مشرف کے علاوہ بھی بین الاقوامی سطح کے بہت سے جنگی ماہرین نے ہمارے خطّہ میں امن کے قیام کے لئے حل دیتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو مکمل طور پر سیل کر دیا جائے سرچ لائٹس اور خاردار تاروں کی چند قطاریں لگائی جائیں جگہ جگہ حفاظتی چوکیاں اور چپّہ چپّہ پر گارڈ تعینات کئے جائیں اور پھر افغانستان اپنے طور پر اور پاکستان اپنے طور پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرے۔
معزز قارئین! یہ حل سو فیصد درست ہے خیِبر پختون خواہ اور بلوچستان سے بڑھ کر یہ فتنہ گر پورے پاکستان میں فتنہ و فساد اور دہشت گردی اور ہمارے ملک کی سلامتی کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ان عناصر کے پیچھے ہمارے عالمی دشمن عناصر ہو سکتے ہیں مگر دشمنوں کے خلاف واویلا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے گھر کے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ مندرجہ بالا تجویز پر عمل کر کے وطن عزیز کو ہر لحاظ سے مسدود اور محفوظ بیانا جا سکتا ہے۔ جنرل کی توّجہ دلانا چاہوں گا کہ درّہ خیبر کی حفاظت کی تحریک صدیوں پہلے گوجرانوالہ کے جاٹوں نے شروع کی اور کامیاب بھی کی اب کچھ عناصر اس کامیابی میں رخنہ اندار ہونا چاہتے ہیں اپنے منصب کے ساتھ انصاف کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر کی روشنی میں بھی آپ کی ذمّہ داری ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد کو اسی طرح محفوظ بنائیں کہ کسی کو ہمار ے ملک میں دخل اندازی کی ہمت اور جرا¿ت نہ ہو!