بھارتی جارحیت: خطے میں ”مِنی جنگ“ کا خطرہ؟
بھارت کی جانب سے جارحیت کی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ یہ اسکی بیمار ذہنیت کا شاخسانہ ہے یا دماغی کمزوری ہے یا کمزور شخص کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ امن و امان کے بجائے جنگ کے سائرن بجائے جا رہے ہیں۔ بادی النظر میں مودی جی کو بھارت کے اندر جس قسم کی گالیاں سننے کو مل رہی ہیں ان سے بچنے کے لیے ہی شاید ایل او سی محاذ کو ’گرم‘ کیا ہوا ہے کہ عوام گرم گرم ، سلگتی خبریں سن کر جذبہ وطنیت میں کھو جائیںکیوں کہ آج کل نوٹوں کے مسائل کی دلدل میں پھنسی بھارتی عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج کا موقع ہی نہ مل سکے۔ خیر مودی جس شیطان ذہنیت کا مالک ہے اس سے اسی قسم کی مذموم کارروائیوں کی توقع ہی کی جا سکتی ہے اور تو اور بھارت کو ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے کی یاد ستار رہی ہے اور مودی نے جس طرح پہلے بھی عندیہ دیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر کارروائی کی جا سکتی ہے، اور اب پھر کہا ہے کہ جو پانی انڈیا کا ہے اسے پاکستان نہیں جانے دیا جائیگا۔ یعنی مودی کی بیمار ذہنیت کے مطابق پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترس جائیگا۔ انہوں نے انڈین پنجاب میں اسمبلی انتخابات سے قبل بظاہر ریاست کے کاشکاروں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ انڈیا کے حصے کے دریائے سندھ کا ایک ایک قطرہ پاکستان جانے سے روک دینگے اور وہ یہ پانی جموں و کشمیر، پنجاب اور دوسرے خطوں کے کاشت کاروں کو دینگے۔انڈیا کا پانی پاکستان جاتا رہا اور دلی میں حکومتیں آتی رہیں، جاتی رہیں، سوتی رہیں اور ہمارے کاشت کار پانی کے لیے روتے رہے حالانکہ مودی کو شاید یہ علم نہیں کہ پہاڑی پانی پر زیادہ حق اوپر والے ممالک کے بجائے نیچے والے ممالک کا ہوتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی سربراہی میں طے پایا تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ماضی کی جنگوں اور لڑائیوں کے درمیان بھی یہ معاہدہ قائم رہا اور کبھی اسکے بارے میں سوال نہیں اٹھا۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلی بار اس معاہدے پر نظر ثانی کی بات کی ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ مودی یہ فرما چکے ہیں کہ”خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔“یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ دریاو¿ں کے پانی کی تقسیم کے اس معاہدے کے سلسلے میں انڈیا کوئی نہ کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔
یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ پاکستان کے قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کا الاﺅ بھڑکانے کیلئے امن دشمن اور وطن دشمن عناصر کو اسلحی اور مالی تعاون کا ایندھن فراہم کر رہی ہے۔ خطے میں بھارت کا نشان اختصاص جنگی جنون بن چکا ہے۔ جب سے پاک چین اقتصادی کاریڈور کی تکمیل کی جانب لمحہ لمحہ پیش رفت ہونا شروع ہوئی ہے مودی سرکار عصبی و نفسیاتی سطح پر بدترین شکست و ریخت کی شکار ہے۔ عالمی ادارں کو اب بلا تامل تسلیم کرنا پڑے گا کہ بھارتی حرکتوں سے خطے کا امن معرض خطر میں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی ادارے آخرکب تک مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرتی رہیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی جارحیت سے اُوڑی واقعے کے بعد اب تک 10خواتین سمیت 38 افراد شہید ، 108افراد زخمی اور گولہ باری اور فائرنگ سے 77 گھر تباہ ،ایک مسجد اورایک سکول کو بھی نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسکے علاوہ لائن آف کنٹرول پر چند ہفتوں میں درجنوں شہریوں کی ہلاکتیں کس طرف اشارہ کر رہی ہیں؟ بھارتی فوج کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے مختلف سیکٹرز میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس ہفتے وادی نیلم کے لوات علاقہ میں بھارتی فورسزنے ایک مسافر بس پر راکٹ داغے اورچھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس سے 10مسافر شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید نے کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کا فوری اور موثر جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح ڈی جی ایم کی طرف سے بھی بھارت کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان بھی اپنی مرضی کے مطابق جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے....
بھارت کو اس حوالے سے بھی شرم کرنی چاہیے کہ انہی کے کٹھ پتلی مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ ”کشمیر کے معاملے پر بھارت کو پاکستان سے بات کرنی پڑے گی،مسئلہ کشمیر کا حال بات چیت کے بغیر نہیں نکلے گا۔مسئلہ کشمیر پر پاکستان ایک فریق ہے،بھارتی کہتے ہیں کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیربھی ان کا ہے، کیا یہ تمہارے باپ کا ہے،بھارت میں دم ہی نہیں کہ وہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو لے سکے۔فاروق عبداللہ نے بھارتی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بارڈر پر لاکھوں لوگ دربدر ہیں، اس سے کیا فائدہ ہوگا، مودی جی؟ مسئلے کے حال کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ بات چیت ہے....“ لیکن مودی جی کو کون سمجھائے وہ پاکستان دشمنی میں اپنے آپ کو غرق کر چکے ہیں.... کبھی وہ اپنی آبدوزوں کو پاکستانی پانیوں میں لے جا تا ہے تو کبھی لائن آف کنٹرول پر پاکستان پر نہتے شہریوں کو نشانہ بناتا ہے .... بھارت اپنے جنگی جنوں میں اندھا ہو چکا ہے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کو اشتعال دلا رہا ہے دونوں ممالک جو کہ پڑوسی بھی ہیں اور دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ابھی تو دنیا جاپان پہ چلانے جانے والے ایٹمی بم کے اثرات اور نقصانات کو نہیں بھولے اگر بھارتی جنگی جنون میں دونوں ممالک میں سے کسی ایک نے ایٹمی اہتھیاروں کا استعال کر لیا تھا تو پھر اس کے مضر اثرات کا اندازہ لگا قطعی مشکل نہیں ہے خطے میں امن برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ”مودی سرکار“بھارتی جارحیت سے باز رہے۔
میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے حکومت پاکستان اپنے تمام وسائل بروئے کا ر لاتے ہوئے اور اپنے اندرونی و بیرونی اور سیاسی اتار چڑھاو¿ کوایک طرف رکھتے ہوئے اس دیرنہ مسئلہ پر اپنا لائحہ عمل متعین کر ے ورنہ اگر حکمران بھارت کو ڈھیل دیتے رہے اور بھارتی فوج جنگی جنون میں اسی طرح مبتلا رہی تو ہمارے پاس پچھتانے کے لیے بھی کچھ نہیں بچے گا.... میرے خیال میں اگر بھارت کو کھلی چھٹی دی جاتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب بھارت ہمارے سر پر چڑھ کر بولنے کی پوزیشن میں ہوگا.... اس لیے بروقت بھارت کے دانت کھٹے کرنے کی ضرورت ہے.... ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات اور ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کا مکروہ اور گھناو¿نا چہرہ عالمی برادری کے سامنے مکمل آزادی کے ساتھ پیش کرے ، کشمیری عوام کے موقف کی صحیح ترجمانی کرے ، بھارت چونکہ پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوشش کو اپنی ہٹ دھرمی سے ناکام بنا دیتا ہے ، لہذا پاکستان کو اقوام متحدہ پر زدر ڈالنا چاہیے کیونکہ اقوام متحدہ نے ہی کئی اقوام کے تنازعات حل کیے ہیں، اگر کو سوہ 2008میں سربیا سے آزادی حاصل کر سکتا ہے، نائیجر، قطر، موریطانیہ ، یمن اور دیگر ممالک آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھ سکتے ہیں تو کشمیر کیوں نہیں۔۔۔؟ کشمیر کا معاملہ بھی اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے اور اقوامِ متحدہ کو باور کروانا اور ا س پر زور ڈالنا حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ کشمیر معاملے پر سپر پاورز کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ بھارت پر دباو¿ ڈالا جا سکے۔ او ر کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہو سکے کیونکہ اس میں ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بقامضمر ہے۔اور ملکوں کو ایسا دباﺅ ڈالنے یا اس پر کام کرنے کے لیے کل وقتی سفارتی سٹاف کی ضرورت ہوتی ہے .... مجھے تعجب ہے کہ چار سو ارکان پر مشتمل ایوان بالا اور ایوان زیریں میں کوئی ایسا رکن قابل رکن موجود نہیں جسے وزارت خارجہ کا منصب سونپا جا سکے.... اگرآپ کے پاس کوئی قابل شخصیت نہیں تو قومی مفاد کی خاطر اپوزیشن سے مستعار لے لیں.... یا ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیں جو مستبقل میں پاکستان کی بہتری کے لیے کام کر سکیں نہ کہ محض خانہ پری اور فنڈکھانے کے لیے اسمبلیوں میں بیٹھ جائیں .... ہم خالی خولی نعرے تو بہت لگاتے ہیں مگر دنیا کام مانگتی ہے، دنیا لیڈر مانگتی ہے....اور وہ کہاں گئی کمیٹی جو دو درجن ارکان پر مشتمل ہے ، جس نے دنیا بھر میں کشمیر کا مقدمہ لڑنا تھا.... کیا وہ سیر سپاٹے کے لیے ٹیم بنائی گئی ہے.... دنیا میں تقریباََ سبھی ممالک نے نامور افراد کو اس منصب کے لیے چنا جا تا ہے.... لیکن مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بات شاید ”قومی“ لطیفہ بن جائے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت نے اہم ترین وزارت خارجہ کے بغیر کام چلایا۔ حقیقت میں ہماری خارجہ پالیسی جمود کا شکا رہے، آج کے نازک دور میں وزارت خارجہ ہی وہ وزارت ہے جس کے ذریعہ کسی ملک کے عالمی تعلقات اور حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے.... جنگ سے بہتر ہے کہ سفارتی سطح پر ضرور بات چیت ہونی چاہیے لیکن ہمیں کشمیر کے محاذ کو پیچھے چھوڑ کر بات چیت کرنے کے حوالے سے سوچنا بھی نہیں چاہیے.... کشمیر کے بغیر بھارت سے بات کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت اسی ”خاموش“ پالیسی کو آگے لے کر چلتی رہے.... ورنہ ایک کہاوت ہے کہ ”برُا رونے سے بہتر ہے کہ چپ رہا جائے“ ....