کامیابی کا مغالطہ
نوجوان ریسرچ سکالر عاطف حسین کے مطابق گزشتہ دو عشروں کے دوران ہمارے ملک میں موٹیویشنل لٹریچر کو بہت عروج حاصل ہوا ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں مغربی صنعتیں ڈیل کارینگی اور سٹیفن کاوی کی کتابوں کے تراجم دھڑا دھڑ بکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا کو مثبت سوچ اور امید پرستی کا سبق دینے والے نامور موٹیویشنل سپیکر ڈیل کارینگی اپنی ذاتی زندگی میں اس حد تک ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہو گیا کہ اس نے خودکشی کر لی۔ آج ہمارے ہاں ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا پر آپ کومختلف تحریریں، اقوال اور لیکچرز بجھوا رہا ہوتا ہے۔ کہ جس سے شاید ایک انسان کامیاب زندگی کے گر سیکھ کر معاشرے میں کامیاب انسان بن جائے گا۔ حالانکہ ہر شخص کے نزدیک کامیابی کے پیمانے مختلف ہو سکتے ہیںکچھ لوگ دولت شہرت اور اقتدار کو کامیابی کے پیمانے مختلف ہو سکتے ہیں کچھ لوگ دولت شہرت اور اقتدار کو کامیابی گردانتے ہوں اور نواز شریف، زرداری اور ملک ریاض بن جانے کے خواہاں ہوں مگر ہو سکتا ہے کچھ نوجوان کیلئے وطن کی ناموس پر جان قربان کر دینے والے کامیاب انساں ہوں جیسے ہمارے ملک کے دفاع کیلئے جان دینے والے لاکھوں فوجی افسران اور جوان جبکہ ہو سکتا ہے کہ کچھ کے کامیابی کا میعار انسانیت کی خدمت ہو اور وہ عبدالستار ایدھی اور مدرٹریسا کو کامیاب انسان جانتے ہوں مگر عاطف حسین اپنی کتاب کامیابی کا مغالطہ میں بتاتے ہیں کہ کامیابی کے معروف تصور چا ہے کھلم کھلا مادیت پر مبنی ہوں یا روحانیت کے تڑکے کے ساتھ پیش کئے جائیں۔ ہر دو صورتوں میں غیر متوازن اور اعلیٰ انسانی اخلاقی آئیڈیلز سے محروم ہیں ان کے خیال میں کامیابی کے کسی یونیورسل تصور کا خیال ہی عبث ہے اور کوئی سماجی اور مذہبی رہنما کی اپنے زور خطابت کے ذریعے متنوع مزاجوں کے حامل انسانوں کو ان کے فطری راستوں سے بھٹکا کر کسی خاص راستے پر چلانے کی کوشش کرنا انتہائی قابل مذمت اور نتائج کے اعتبار سے خطرناک ہے اور یہ خیال بڑا مضحکہ خیز ہے کہ کوئی ایک شخص اپنی ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر کامیابی فراہم کرنے والا ”گرو“ بن جائے اور ہر مزاج اور ہر پروفیشن کے آدمی کو کامیابی کے گر بتائے۔
زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا کہ کوئی آدمی کسی ایک مخصوص پروفیشن میں کامیابی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر دے یا اعلیٰ انسانی اقتدار کا پرچار کر دے مگر جب کوئی موٹیویشنل سپیکر یہ کہے کہ کامیابی یا ناکامی کا انتخاب انسان خود کرتا ہے نہ کہ اس کی قسمت یا حالات اور اکثر دھوکا باز مقررین یا لکھاری بل گیٹس سے منسوب یہ جملہ بھی بار بار دھراتے ہیں کہ غریب پیدا ہونے میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن اگر آپ غریب ہی مر جاتے ہیں تو یہ سراسر آپ کا اپنا قصور ہے۔
یہ نظریات جہاں اجتماعی انسانی آئیڈیلز سے محروم ہیں وہاں امیروں کو انسانی بنیادوں پر اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے بھی قائل نہیں کرتا ہے کہ ہمارے ہاں امراءیہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی محنت، قابلیت اور صلاحیتوں سے امیر ہوئے ہیں اور اگر دوسرے لوگ زندگی کی دوڑ میں ان سے پیچھے رہ گئے ہیں تو وہ خود اس کے قصور وار ہیں حالانکہ امراءکو پتہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ لوگوں کی اکثریت کا معاشی استحصال کر کے کامیاب ہوئے ہیں۔ کہیں انہیں حالات اور قسمت نے مواقع دیئے اور کہیں انہوں نے کرپشن اور اپنے ملک کے اقتدار کے مراکز پر قابض ہو کر اپنے کاروبار کو آگے بڑھایا ہے اس کی کلاسیکی مثال شریف خاندان ہے۔ مگر جب معاشرے کے مادی لحاظ سے کامیاب لوگوں کو غیر معمولی انسان قرار دے کر ان کی مدح و تحسین کی جاتی ہے۔ ملک ریاض اور میاں محمد منشاءکو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے تو پھر وہ لوگ جو دولت اور شہرت کو چھوڑ کر ملک و قوم کیلئے شہید ہوتے ہیں اور وہ جو انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے کیلئے اپنا سب کچھ تیاگ دیتے ہیں تو ایسی کامیابی کے میعار کے حامل قائد اعظم، علامہ اقبال، نشان حیدر کا اعزاز رکھنے والے شہداءاور جنرل راحیل شریف جیسے بہادر غازیوں کی عزت نفسکو گہنانے کی لاشعوری کوشش کی جاتی ہے۔
اگرچہ انسان اپنی زندگی کو خود بنانے پر کسی حد تک قادر ہے اور وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر زندگی میں کامیابی کے مراحل طے کر سکتا ہے مگر جب چار ایک ہی طرح کی قابلیت کے حامل ایک ہی لانگ کورس کے لیفٹیننٹ جنرلز کا نام آرمی چیف کے امیدواروں میں شامل ہوتا ہے تو پھر جب جنرل قمر جاید باجوہ صاحب کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے علاوہ تقدیر کا بھی عمل دخل ہے۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے تو چاروں جرنلز ایک ہی معیار پر تھے۔ یہاں پر انسان کا Voluntarism پر ایمان اٹھ جاتا ہے اور وہ Fatalism کا قائل ہو جاتا ہے۔ ایک بچہ ایک نمبر سے میڈیکل کالج میں چلا جاتا ہے اور دوسرا بچہ نہیں جا پاتا ہے۔ پاکستان کے ایک کھلاڑی نے اگلے دن ٹیسٹ میچ کھیلنا تھا مگر وہ میچ سے پہلے گڑھی شاہو موٹرسائیکل پر کسی کام سے گیا‘ موٹرسائیکل کے سائلنسر سے اس کا پاﺅں جل گیا‘ اس کی جگہ دانش کنیریا کو ٹیسٹ میچ مل گیا اور پھر یہ لڑکا جنوبی افریقہ چلا گیا اور آج عمران طاہر وہاں کا نامور لیگ سپنر ہے۔ اگرچہ امیر پرستی اور مثبت سوچ بھی لازم ہے۔ اس کا پرچار کرنا بھی اچھا ہے مگر میں جب اپنی زندگی کے گزشتہ تجربوں کو مدنظر رکھتا ہوں تو میرا جھکاﺅ اس مفہوم کی طرف ہے جو میر تقی میر بیان کرتا ہے
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہیں ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا
ہیلری کلنٹن پاپولر ووٹوں کی اکثریت کے باوجود صدر منتخب نہیں ہوئیں۔ بھٹو خاندان کی شہادتوں کے مزار پر آصف علی زرداری ملک کے صدر بن جاتے ہیں تو پھر یہ سب کچھ کسی خاص کوشش کا مرہون منت ہے یا محض قسمت اور مقدر کا کھیل۔ ٹھیک ہے نوازشریف اور آصف علی زداری اپنی سیاسی کامیابیوں میں اپنی ذہانت اور تیزی طراریوں کو بہت کریڈٹ دیتے ہونگے مگر داخلی خودمختاری کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نہ تو کوئی شخص خوش بختی کے سہارے دنیاوی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے ارادے‘ عزم اور کامیابیوں کیلئے کی گئی منصوبہ بندی سے اگر بل گیٹس‘ واران لفٹ یا مارک ذکر پرگئی پاکستان یا کسی دور دراز پسماندہ افریقی ملک کے باشندے ہوتے تو کیا وہ دنیا کے اتنے ہی بڑے دولت مند فرد ہوتے۔ امریکی نظام اور معاشرے نے ان کو زندگی میں اوپر جانے کے مواقع فراہم کئے۔ نامور دانشور احمد جاوید کے مطابق مایوسی تو انسانی Pesspectwe میں سرے سے کوئی چیز ہی نہیں ہے کیونکہ انسان مایوس ہونا جانتا ہی نہیں ہے۔ اس طرح سے میں اس خیال کو بھی درست نہیں سمجھتا ہوں کہ اگر انسان کو یہ بتایا جائے کہ تمہاری محنت سے ضروری نہیں کہ تمہاری سمت بدل جائے گی۔ دراصل محنت کا صرف دنیاوی خوشحالی کے حصول کا ایک ذریعہ ہونے کا تصور نسبتاً جدید ہے اور تاریخی طورپر محنت کا تصور نتائج سے قطع نظر ایک اخلاقی قدر کا رہا ہے۔ انسان اگر قسمت کی حاکمیت کے نظریے پر یقین رکھے گا تو وہ اپنی محنت کے من چاہے نتائج ملنے پر مفرور نہیں ہوگا اور من چاہے نتائج نہ ملنے پر اپنی نظروں سے نہیں گرے گا۔