• news

وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں: سپریم کورٹ کے وکیل سے3 سوال

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پانامہ پیپرز لیکس کیس کی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ر شیخ رشید احمد نے دلائل مکمل کرلئے جبکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے کے باعث کیس کی مزید سماعت آج بروز بدھ تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے مسﺅل علیہ میاں محمد نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے 3 سوالات پر جواب طلب کئے ہیں۔ (اول) وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں اور ان کے لئے پیسہ کہاں سے آیاہے؟ (دوئم) مریم صفدر کے وزیر اعظم کے زیر کفالت ہونے کے معاملہ کی وضاحت کریں؟ (سوئم) واضح کریں کہ وزیر اعظم کی تقریروں میں تضاد پر بتاےا جائے کہ سچ کہا گیا ہے ےا جھوٹ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الزامات کے خلاف ثبوت فراہم کرنا ملکیت تسلیم کرنے والوں کی ذمہ داری ہے، وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ مریم نواز 1992 میں شادی کے بعد سے اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہی، عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے تین سوالوں کے جوابات کے علاوہ کہا کہ وہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی وہ رسید دکھائیں جس کے تحت مریم نواز نے اپنے والد کو رقم ادا کی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی تو عدالت کے رو برو جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظوربٹ نے ایک مرتبہ پھرسپریم کورٹ سے تحقیقاتی کمشنبنانے کی درخواست کی انہوں نے دلائل میں کہا کہ 556 آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں اور سب کے معاملے کو دیکھا جائے اور احتساب کا عمل حکمرانوں سے شروع کیا جائے اور با قی کے لیے کمشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا تمام آپشنز کھلے ہیں، اگر ہم کسی مرحلے پر اس نتیجے پر پہنچے کی کمشنبنائیں اور انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوئے تو کمشنضرور بنائیں گے ہم نے سب کے موقف کو سننا ہے جس کے بعد فیصلہ کریں گے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ ادارے اپنا کام نہیں کر رہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ان اداروں کو کس نے روکا ہے کہ کام نہ کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ایف آئی اے اور پولیس سمیت اتنے بڑے بڑے ادارے ہیں اگر ادارے کام نہیں کررہے تو انہیں بند کردیں، ادارے قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے بچوں نے پانامہ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کرنے کی درخواست دائر کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں۔ جب ہم نے دیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ عمران کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں سعودیہ مل کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی ¾ لندن فلیٹس سعودی مل بیچ کر خریدے یا دوبئی مل بیچ کر، بیان میں واضح تضاد ہے ¾ نوازشریف نے کہا ہے کہ لندن فلیٹ جدہ اور دبئی ملوں کی فروخت سے لئے ¾33 ملین درہم میں دبئی سٹیل مل فروخت ہوئی اور یہ قیمت وزیر اعظم نے بتائی۔ حسین نواز نے کہا ہے کہ لندن فلیٹ قطر میں سرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے ¾وزیر اعظم نے مسلسل ٹیکس چوری کی، 2014 اور 2015 میں حسین نواز نے اپنے ابوجی کو 74 کروڑ کے تحفے دیئے ¾ ان تحفوں پر وزیر اعظم نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ اس کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں مریم صفدر کو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسین نواز کو 2 کروڑ کے تحفے والد نے دئیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کی زیر کفالت ہیں نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز چوہدری شوگر مل کی شیئر ہولڈر ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کی آمدن کا ذریعہ یہی ہو۔ نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز کے مطابق وہ کسی پراپرٹی کی مالک نہیں ¾انہوں نے کوئی یوٹیلیٹی بل جمع نہیں کرائے ¾ 2011 سے 2012 کے دوران مریم نواز کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ¾ مریم نواز نے والد سے 3 سال میں مجموعی طور پر 8 کروڑ روپے وصول کیے ¾ انہوں نے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ روپے کا قرض لیا ¾ مریم نواز کے شیئرز اور زرعی اراضی بھی ہے ¾ کمپنیوں کے ٹرسٹ ڈیڈکی کوئی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بی ایم ڈبلیو گاڑی تو پہلے سے استعمال شدہ تھی ¾ گاڑی کی مالیت میں ایک کروڑ 96 لاکھ کا اضافہ کیسے ہوگیا؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بل جمع کرانا گھر کے مردوں کا کام ہوتا ہے ¾کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مریم والد کے زیر کفالت ہیں ¾ زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے ¾ ہمیں جائزہ لینا ہوگا اور تلاش کرنا ہوگا کہ ملک کے قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ نومبر1999 میں حسن نوازنے ایک انٹرویو میں کہا کہ فلیٹس میں کرائے پر رہتا ہوں، فلیٹس کا کرایہ پاکستان سے آتا ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کرایہ پاکستان سے ضرور آتا ہے لیکن وہ بزنس سے آتا ہے یہ بات ہم نے نوٹ کی ہے ¾ قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ لندن کی جائیداد ان کی تھی سوال ہے کہ کیا حسن نواز کا بیان قطری شہزادے کے خط سے مطابقت رکھتا ہے۔ 1999 میں حسن نواز طالب علم تھا تو 2 سال بعد فلیگ شپ کمپنی کی رقم کہاں سے آئی ¾کرایہ دادا ابو کے شروع کردہ کاروبار سے آتا ہے یہ حسن نواز مان چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میاں شریف خود کاروبار سنبھالتے تھے، ہوسکتا ہے کہ میاں شریف بچوں اور پوتوں کی دیکھ بھال کرتے ہوں جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تمام بیانات کو ملا کر پڑھیں کہ پیسہ دبئی سے قطر پھر سعودی عرب اور پھر لندن گیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوومبر کمپنی کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی ہے ¾اس کو جو کمپنی فنڈ فراہم کرتی ہے۔ عمران کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کے گوشواروں کے مطابق مریم نواز2011میں ان کے زیر کفالت تھیں۔ وزیراعظم کے بیانات میں تضاد ہے اس وجہ سے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپ سے بہت سے سوال کرنے ہیں بخاری صاحب، آپ جس دور کی بات کر رہے ہیں اس وقت وفاق مشرف کو ظاہر کرتا تھا۔ کیا مفاد عامہ کے تحت درخواست میں صادق اور امین کا معاملہ سن سکتے ہیں ¾ اس حوالے سے قانون کے مطابق فورم موجود ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو پہلے سزا ہوئی پھر وہ نااہل ہوئے۔ نعیم بخاری کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل دیئے۔ انہوں نے کہاکہ علم نہیں کہ 12ملین درہم کتنے برکت والے ہیں جو 1989سے لے کر آج تک ختم نہیں ہو رہے۔ شیخ رشید کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انکم ٹیکس کاخانہ بھرا نہیں گیا تھا تو اس کا جائزہ لینا کس کا کام ہے۔ وقفے کے بعد جب کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔انہوں نے کہاکہ 1992 میں مریم نواز کی شادی کے بعد وہ وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان بٹ سے کہا یہ ثابت آپ نے کرنا ہے بٹ صاحب۔ آپ ہمیں بتائیں کہ پیسہ کہاں سے آیا اور کیسے منتقل ہوا؟ انکل، گرینڈ سن اور گرینڈ فادر کے ذریعے منتقلی نے ہمیں الجھا رکھا ہے۔ بیانات میں تضاد کا بھی الزام ہے۔ سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواستوں میں عائد تمام الزامات کا جواب دوں گا، وزیراعظم کی تقاریر کو تفصیل سے سامنے رکھوں گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الزامات رقم منتقلی کے بارے میں بھی عائد کئے گئے ہیں۔ آپ کے پاس دفاع کے لئے بنیادی طور پر کیا ہے؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ الزام ہے کہ کمپنیاں اور جائیداد غیر قانونی طریقے سے بنائی گئیں۔ سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں نے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے۔ سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ مریم کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لئے کوئی اور کالم موجود نہیں تھا، وزیراعظم نے جائیداد کے لئے رقم ادا کی تھی اس لئے خانے میں نام ظاہر کرنا ضروری تھا۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زیر کفالت افراد میں دو بالغ افراد کا ذکر کیا گیا۔ سلمان بٹ نے کہا کہ ان دو افراد میں وزیراعظم خود اور ان کی اہلیہ ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم خود اپنے زیر کفالت کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیس کی سماعت بدھ تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔ وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق گزشتہ روز پیر 5دسمبر کو اضافی دستاویزات کے ساتھ جمع کروائی گئی درخواست میں موقف اختےار کےا گےا ہے کہ حسین نواز کو ایف بی آر نے 21سال کی عمر میں این ٹی این ٹیکس نمبر جاری کر دےا تھا، اس ٹیکس نمبر 0667548-4کے تحت این ٹی این سرٹیفکیٹ کی مصدقہ کاپی سپریم کورٹ میں داخل کروادی گئی ہے، قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے تحائف کی رقم پر ٹیکس ادا کرنے کے معاملے پر ٹیکس سرٹیفکیٹ جمع کرواےا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن