وی سی یک تعیناتی ہائیکورٹ نے سرکاری یونیورسٹیوں کے قوانین میں ترامیم کالعدم کردیں
لاہور(وقائع نگار خصوصی)لاہور ہائیکورٹ نے وائس چانسلرز کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ لاہور کی پانچ بڑی یونیورسٹیوں سمیت مجموعی طور پر 13 بڑی یونیورسٹیاں فیصلے کی زد میں آ گئیں۔ وائس چانسلرز کی تعیناتی سے متعلق کی گئی تمام یونیورسٹیوں کے قوانین میں ترامیم کالعدم کر دی گئیں۔ مسٹرجسٹس شاہد کریم نے 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پنجاب حکومت کا وائس چانسلرز کی تقرریوں کا اختیار کالعدم کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمشن کو سونپ دیا۔ فیصلے کے مطابق پنجاب یونیورسٹی، لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لاہور، جی سی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی، بہاولپور یونیورسٹی، فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی راولپنڈی، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، یونیورسٹی آف سرگودھا، یونیورسٹی آف گجرات، انجینئرنگ یونیورسٹی ملتان اور غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان کے قوانین میں وائس چانسلرز کی تقرری کیلئے کیلئے ترامیم غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دی گئی ہیں۔ تمام یونیورسٹیوں کے قوانین کے تحت سرچ کمیٹیوں کے قیام کی دفعات بھی کالعدم کر دی گئی ہیں، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جن یورنیورسٹیوں میں قائم مقام وائس چانسلرز کام کر رہے ہیں، وہاں پنجاب حکومت سات روز میں سینئر ترین پروفیسر کو بطور قائم مقام وائس چانسلر تعینات کرے اور موجودہ قائم مقام وائس چانسلرز کو فوری طور پر عہدوں سے ہٹایا جائے۔ پہلے سے موجود وائس چانسلر کو مدت پوری ہونے پر بطور قائم مقام وائس چانسلر توسیع دینا قانون کی روح کیخلاف اور غیرقانونی ہے جبکہ تمام یونیورسٹیوں کیلئے ایک ہی سرچ کمیٹی قائم کرنا غیرقانونی اقدام ہے۔ فیصلے میں ہائر ایجوکیشن کمشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر ایچ ای سی آرڈیننس کی دفعہ اکیس کے تحت عالمی معیار کی یونیورسٹیوں کے قواعد وضوابط کے مطابق پبلک سیکٹر یونیوسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل شروع کرے، اگر دفعہ اکیس پر عملدرآمد ممکن نہ ہو سکے تو ایچ ای سی اپنے قواعد وضوابط کے مطابق وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل شروع کرے۔ ہر پبلک سیکٹر یونیورسٹی کی سپیشلائزیشن کے لحاظ سے الگ الگ سرچ کمیٹی قائم کی جائے اور شفافیت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سرچ کمیٹیوں کے اکثریتی ممبران کی تعداد کا حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جسٹس شاہد کریم نے اس فیصلے کو عدالتی نظیر قرار دیا ہے جس کے تحت اب یہ فیصلہ مستقبل میں کسی بھی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کی تقرری میں بطور رہنمائی اور بطور حوالہ استعمال کیا جا سکے گا۔