ٹریفک اہلکار کی بجائے وزیراعظم کا احتساب ہوگا تو کرپشن ختم ہوگی: سراج الحق
لاہور (خصوصی نامہ نگار) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ پوری قوم عدالت کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ملک کرپشن کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا، اس دلدل سے نکالنا سپریم کورٹ کا فرض ہے، یہ کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کی نسلوں کا معاملہ ہے ۔ پانامہ لیکس ایک قومی مسئلہ بن گیا۔ حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت دسمبر میں ہی یہ معاملہ حل کرے۔ یہ کیس 2017 ء میں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ کی گھڑی ہے ہم کہتے ہیں کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے کمشن بنایا جائے۔ ہم سپریم کورٹ سے چاہتے ہیں کہ وہ خود ٹی او آرز بنائے اور کمیشن کے لیے کوئی لا محدود مدت نہیں ہونی چاہیے ۔ اگر جذبہ موجود ہو تو 25 دن میں کیس مکمل کیا جا سکتا ہے ۔ پانامہ لیکس میں بہت سے کردار ہیں ۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ تمام کرداروں کی انکوائری اور ٹرائل کیاجائے اس میں اپوزیشن ، حکومت ، عدلیہ اور بیورو کریٹس شامل ہیں ۔ منصورہ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خْاندان کا معاملہ پہلے دیکھا جائے کیونکہ وزیر اعظم نے اپنے بچوں کے پانامہ لیکس میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں وہ دن نہیں دیکھنا چاہتا کہ جس دن قوم عدالت سے مایوس ہو جائے کیونکہ جن معاشروں میں قومیں عدالتوں سے مایوس ہو جاتی ہیں وہاں پر خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اصلاحات لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے یہ کام اسمبلی کا تھا لیکن اسمبلی میں قانون سازی نہیں ہوئی ۔ حکومت نے ابھی تک کوئی بل پیش نہیں کیا جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے پیش کئے گئے چار بل سرد خانے میں ڈال دئیے گئے کیونکہ سپیکر اور دیگر نظام حکومت کے ہاتھ میں ہے ۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ یہ آئیڈیل جمہوری نظام نہیں ہے فوجی عدالتیں سول عدالتوں پر عدم اعتماد ہے لیکن اس کو ایمرجنسی میں کسی خاص وقت کے لیے تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ٹریفک اہلکار کی بجائے وزیراعظم کا احتساب ہو گا تو کرپشن ختم ہو گی کوئی احتساب سے بالاتر نہیں سب سے پہلے وزیراعظم اور انکے خاندان کا احتساب ہونا چاہیے۔