• news

نیب قوانین میں بہتری کیلئے جلد قانون سازی کی جائے :سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں نیب آرڈیننس 1999ء کے سیکشن 25a کے تحت پلی بارگیننگ کرکے کرپشن میں ملوث ملزموں کو چھوڑنے کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے نیب کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے جنوری کے پہلے ہفتے تک پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے ، عدالت نے اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے موجودہ نیب قوانین میں بہتری کے لئے قانون سازی کا عمل جلد مکمل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری افسر جس پر کرپشن کا الزام ہوتا ہے وہ قسطوں میں پیسے دیتا ہے اور سرکاری پوسٹ پر بحال ہوجاتا ہے، عدالت نے اسی لئے سوموٹو لیا تھا کہ نیب قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو رہا جو اب بھی نہیں ہورہا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں معلوم ہے نیب میں کیا کچھ ہورہا ہے ،بتایا جائے نیب کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے پچاس ہزار سے یا پانچ ہزار سے؟ پانامہ کیس میں کارروائی پر نیب نے ہاتھ کھڑے کردیئے کہ یہ ہمارے دائر اختیار میں نہیں ، نیب نے پٹواری، سول سرونٹ، جو دو چار لاکھ کی بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں کو پکڑ کر جیل میں ڈالا ہوتا ہے، والینٹری ریٹرن سبجیکٹ ٹو کورٹ ہونا چاہئے، پسند نہ پسند کی بنیاد پر نہیں، میگا کیس میں ملزم پر 10کروڑ کرپشن کا الزام ہوتا ہے ایک کروڑ پر ڈیل ہوتی ہے 50ہزار روپے دیکر وہ اپنی پوسٹ پر بحال ہوجاتا ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب آرڈیننس 1999 کے تحت کارروائی کی پاورز حد بدلتی رہتی ہے 5سو ملین سے ہزار ملین روپے کی کرپشن میں آٹھ دس لوگ ملوث ہوں تو انہیں چھوڑ نہیں جاسکتا، نیب آرڈیننس کا پری فیس پریمبل پڑھ دیتا ہوں، جسٹس ہانی نے کہا کہ پری یمبل(ابتدائیہ، پیش لفظ) سے کوئی قانون نہیں بنتا، پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 18 کے مطابق ریکور ہونے والا ریونیو قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی شکایت،ہدایت کی روشنی میں بھی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے، اصغر علی کیس میں پلی بار گین کے قانون پر خوب بحث کی گئی ہے، جس کے مطابق 10کروڑ سے چھوٹے کیس نہیں لیئے جائیں گے، بینک ڈیفالٹ، کے کیس اینٹی کرپشن نہیں لے سکتی ، وہ کیس جو ایف آئی اے وغیر ہ چھوڑ دیتی اس کو پورا کرنے کے لیئے نیب کیس لے لیتا، جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سکول ٹیچر ، پٹواری جو کرپشن کرکے کھلے پھرتے ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی تو اینٹی کرپشن کو بند کردینا چاہئے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ایک کیس میں پٹواری ملوث ہو توکیا رقم کم ہونے کی بنیاد پر اسے چھوڑ دیا جائے؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ مشترکہ کیس کی بات کرہے ہمارا مقصد پٹواری ، سرکاری ملازم وغیرہ کی بڑی میگا کرپشن ہے، نیب رقم ریکور کرتا ہے ، جسٹس ہانی نے کہا کہ نیب کا کردار ریکوری آفسر کا نہیں ہے،قانون کا استعمال، حدود، دو، چار لاکھ، کروڑ رضاکارانہ (وی آر) کرنے والوں کی کیٹیگریز بنانا ہوں ہوگی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ اربوں روپے کے مقدمات جن میں مضاربہ سکینڈل، لینڈ سکیم، ڈبل شاہ، میں عوام کے پیسے ریکور کرکے دیئے، بہتری کے لیئے قانون سازی ہورہی سیکشن 25b بنارہے ہیں کام جاری ہے ، عدالتی حکم پر عمل درآمد ہو رہا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاں سرکاری، نجی افراد، بنک ملوث ہوں ان میں تخصیص اور قانون سازی ہونا چاہئے قانون سازی وزارت قانون کا کام ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں کہا جاتا ہے ہے کہ قانون سازی ہورہی منصوبہ پائپ لائن میں ہے اس پر حقیقت اور عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا ہوتا ہے، ایف ایس ٹی کا فیصلہ عدالت نے دیا مگر قانون سازی نہ ہونے پر عدالت کو سوموٹو ایکشن لینا پڑا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب کی میگا کرپشن فہرست کے مطابق ایک ڈائریکٹر ایف آئی اے کرپشن میں ملوث ہے جو پلی بار گیننگ کرکے واپس ایف آئی اے میں کام کررہا ہے ، سندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کرپشن میں ملوث 20افراد جبری ریٹائرڈ، چار کو ڈس مس کیا، 26کو شو کاز نوٹس جاری کیئے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جبری ریٹائر کرنے کا کیا مقصد ہے؟ یعنی وہ کرپشن کرے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سرکار سے پیسے بھی لیتا رہے؟ عدالت نے گزشتہ سماعت پر 25 لاکھ تک کی کرپشن کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا حکم امتناعی برقرار رکھتے ہوئے مزید سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن