’’تحریکِ سانجھا پنجاب‘‘ ناکام و نامراد!
5 دسمبر کو جناب ضیاء شاہد کے اردو روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے پنجابی صفحہ پر ’’خبریں‘‘ کے زیر اہتمام لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقدہ سیمینار کی رپورٹ معلومات افزاء ہے ۔ پنجابی زبان کے شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں نے پنجاب میں مادری زبان پنجابی کے فروغ پر بات کی اور یہ نوحہ بھی پڑھا کہ ’’ پنجاب میں بارہ ہزار ایم اے پاس لڑکے اور لڑکیاں بے روزگار ہیں اور پنجاب (لاہور) سے پنجابی زبان میں صِرف دو روزانہ اخبارات جناب مدثر اقبال بٹ کا ’’ بُھلیکا‘‘ اور پروفیسر جمیل احمد پال کا ’’ لوکائی‘‘ شائع ہوتے ہیں لیکن انہیں حکومتِ پنجاب کی طرف سے مِلنے والے اشتہارات زیرو کے برابر ہیں ‘‘۔ رپورٹ میں پنجاب کے ماہوار جرائد کا ذکر نہیں کِیا گیا ۔
رپورٹ کے مطابق ’’سندھ سے سندھی زبان کے 57 روزنامے اور 100 سے زیادہ ماہوار رسالے شائع ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے پشتو زبان کے سات روزانہ اخبارات ، بلوچستان سے بلوچی زبان میں چار اور براہوی زبان میں ایک روزنامہ شائع ہوتا ہے اور تینوں صوبوں کی حکومتیں اُن اخبارات و رسائل کی سرپرستی کرتی ہیں‘‘۔ اِس کا یہ مطلب ہُوا کہ اُن تینوں صوبوں کے حکمرانوں کی اپنی اپنی مادری زبان سے محبت ہے لیکن پنجاب کے حکمرانوں کو اپنی مادری زبان پنجابی سے نہیں ہوگی ۔
مجھے 1986ء اور 1988ء میں سوویت یونین کا دورہ کرنے پر پتہ چلا کہ ’’سوویت یونین کی ہر ریاست میں پرائمری تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ مڈل سے روسی زبان شروع ہو جاتی ہے اور او لیول کے بعد ہر طالب علم/ طالبہ کو کوئی غیر ملکی زبان سِیکھنے پر وظیفہ دِیا جاتا ہے۔ اِس طرح ہر گریجویٹ کو تین زبانوں میں مہارت ہو جاتی ہے‘‘۔ پاکستان میں اِس طرح کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اگر پنجاب میں 12 ہزار ایم اے (پنجابی) لڑکے اور لڑکیاں بے روزگار ہیں تو ہزاروں ایم اے ( انگریزی) لڑکے اور لڑکیاں بھی بے روزگار ہوںگی؟۔ انگریزی دَور میں انگریزی زبان ذریعۂ روزگار تھی۔ اب بھی ہے لیکن مخصوص طبقے کے نوجوانوں کے لئے پنجابی میری مادری زبان ہے۔ مَیں نے اردو زبان سکول میں سِیکھی اور صحافی کی حیثیت سے 1980ء میں شوقیہ گُر مکھی (سِکھی پنجابی) اور ہندی سیکھی۔
دسمبر 2004ء میں مَیں نے پاک پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کی میڈیا ٹیم کے رکن کی حیثیت سے بھارتی پنجاب کے شہر پٹیالہ میں پنجابی یونیورسٹی میں منعقدہ ’’عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ میں بھارت کے سِکھ اور پاک پنجاب کے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں کی تقریریں سُنیں۔ وہ پنجابی زبان کی بنیاد پر پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب کی سرحدی لِکیر مٹانے اور ’’سانجھا پنجاب‘‘ کی بات کر رہے تھے۔ مَیں نے اپنی تقریر میں (اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا تھا کہ) ’’ایس لکِیر وِچّ میرے بزرگاں دا لہو شامل اے۔ مَیں ایس لکِیر نُوں نئیں مِٹن دیاں گا‘‘۔ وطن واپسی پر مَیں نے صوفی شاعروں کی پنجابی کو عام کرنے کے لئے پنجابی زبان میں لاہور سے اخباری سائز میں "Four Colour" ماہنامہ ’’چانن‘‘ جاری کِیا۔ نومبر 2011ء کے ’’چانن‘‘ میں شائع ہونے والا ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کا کسی پنجابی جریدے کو پہلا اور آخری انٹرویو تھا ۔
میرے سوال کے جواب میں جناب مجید نظامی نے کہا تھا کہ ’’جیہڑے لوک پاک پنجاب تے بھارتی پنجاب دی سرحدی لکِیر مٹاونا چاہندے نَیں، اوہ ایتھوں (یعنی پاکستان سے) دفع ہو جان۔‘‘ مَیں نے پنجابی زبان کو فروغ دینے کی بات کی تو جنابِ نظامی نے کہا کہ ’’پنجاب دے صوفی شاعراں دی پنجابی تے اوس طراں دی آسان پنجابی نُوں فروغ دینا چاہیدا اے پر ایہہ گل یاد چیتے رکھنی چاہئیدی اے پئی، جے اسیں پنجابی تِیکر ای رہندے تاں پاکستان ایٹمی طاقت نئیں سی بن سکدا؟‘‘۔ جنابِ نظامی نے یہ بھی کہا کہ ’’ انگریزی زبان "Lingua Franca" یعنی مختلف زباناں بولن والیاں لوکاں وچ رابطے دی زبان تے مشترکہ بولی بن گئی اے‘‘۔
جناب ضیاء شاہد نے ڈیڑھ سال شائع کرنے کے بعد اپنا پنجابی روزنامہ ’’خبراں‘‘ بند کردِیا۔ مجھے بھی ماہنامہ ’’ چانن‘‘ بند کرنا پڑا ۔ ضیاء شاہد صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’ہُن اخبار مِشن نئیں انڈسٹری بن چُکیا اے۔ فَیدہ تے نقصان ویکھنا پیندا اے‘‘۔ پاک پنجاب سے شائع ہونے والے روزانہ اور ماہوار اخبارات وجرائد کی مقبولیت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ دراصل ہمارے شاعر، ادیب اور دانشور اپنے مضامینِ نظم ونثر میں سرحد پار کے سِکھوں کو خُوش کرنے کے لئے گُورمکھی (سِکھی بولی) کے نامانوس الفاظ ٹھونس دیتے ہیں۔ پنجاب کے صوفی شاعروں نے اپنے اشعار میں بلاتکلف عربی، فارسی اور اردو زبان کے الفاظ استعمال کئے۔ اُن کی شاعری عام فہم ہے۔ گُورو مکھی (سِکھی پنجابی) میں ہندی اور سنسکرت زبانوں کا غلبہ ہے۔ پاک پنجاب میں اور بھارتی پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی دو الگ الگ زبانیں ہیں اور اُن کا رسم اُلخط بھی مختلف ہے۔
اگست 2011ء میں کینیڈا کے شہر "Toronto" میں گُور مکھی (پنجابی) کے ہفتہ روزہ ’’اجیت‘‘ کے مالک (آنجہانی) سردار درشن سِنگھ بینں اور اُن کی بیوی کے بھائی سردار عجائب سِنگھ چٹھہ نے ’’عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ کا اہتمام کِیا۔ جِس میں پاک پنجاب کے کئی شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور بھی شریک ہُوئے۔ کانفرنس میں پنجابی زبان کا ’’مشترکہ جھنڈا‘‘ لہرایا گیا اور قرارداد منظور کی گئی کہ ’’پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے دانشوروں کا ایک مشترکہ بورڈ بنایا جائے جو اتفاق رائے سے پنجابی زبان میں سے عربی، فارسی، اردو اور ہندی کے الفاظ نکالنے کی سفارش کرے‘‘۔ مَیں نے دسمبر 2011ء کے ’’چانن‘‘ میں لِکھا کہ ’’سِکھوں کے نویں گُرو گُرو ’’تیغ بہادر‘‘ جی کا نام فارسی زبان میں ہے۔ اگر اُن کے نام سے فارسی کے الفاظ ’’تَیغ اور بہادر‘‘ نکال دئیے جائیں تو کیا اُن کی بے حرمتی نہیں ہوگی؟‘‘۔
اِس سے قبل نومبر 2011ء میں سردار درشن سِنگھ اور عجائب سِنگھ چٹھہ کے اعزاز میں پنجاب یونیورسٹی میں ’’عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ کا ڈھونگ رچایا گیا۔ سِکھ مہمانوں سے دامادوں اور بہنوئیوں کا سا سلوک کِیا گیا۔ کانفرنس کے بعد عجائب سِنگھ چٹھہ مجھے مِلنے کے لئے ’’چانن‘‘ کے دفتر آئے۔ پنجابی زبان کے تین علمبردار، ڈاکٹر ریاض احمد شاہد، ڈاکٹر دلشاد ٹوانہ اور نامور شاعر جنابِ حسین شاد پہلے سے موجود تھے۔ مَیں نے چٹھہ صاحب کو ’’چانن‘‘ پیش کِیا۔ اُنہوں نے کہا ’’اثر چوہان جی! مَیں تہاڈی پنجابی دی ’’لِپّی‘‘ (رسم اُلخط) نہیں پڑھ سکدا‘‘۔ مَیں نے کہا ’’چٹھہ جی! مَیں تہاڈی پنجابی دی ’’ لِپّی‘‘ پڑھ سکناں۔ فَیر میری تہاڈی سانجھ کِیویں ہووے گی؟‘‘۔ چٹھہ جی شرمندہ ہوگئے۔
1947ء میں سِکھوں نے مشرقی پنجاب میں دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا۔ 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی آبروریزی کی۔ بھارت کے ہندو حکمرانوں سے زخم کھا کر سِکھ قوم پچھتا رہی ہے لیکن پاک پنجاب کے غیرت مند لوگ اُن کی ’’تحریکِ سانجھا پنجاب‘‘ کو ناکام اور نامراد بنا دیں گے۔ پنجابی اخبارات ورسائل بھی اگر صوفی پنجابی شاعروں کی پنجابی کوعام کریں تو اُن کے لئے برکتیں ہی برکتیں!۔