فائٹر پائلٹ‘ ڈاکٹر‘ انجینئر کی بجائے نہ چاہتے ہوئے بھی گلوکار بن گیا‘ بھائی کے گانوں کی ریکارڈنگ سنتا تھا‘ نرم آواز ملائم لہجے والے جنید کی باتیں
لندن (بی بی سی) نرم آواز اور ملائم لہجے والے جنید جمشید کی تمام زندگی ایک پڑاو¿ سے دوسرے پڑاو¿ کی جانب سفر سے عبارت رہی۔ وہ سفر جو کنسرٹ ہال سے شروع ہو کر مختلف موڑ مڑتا، کہیں یو ٹرن لیتا، کہیں رکتا، پلٹتا، بالآخر 7 دسمبر کو حویلیاں کے قریب ایک پہاڑی پر ہمیشہ کے لیے انجام پذیر ہو گیا۔ بی بی سی کے مطابق جنید جمشید خود کہتے تھے کہ میں فائٹر پائلٹ بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا، ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا۔ انجینیئر بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا۔ گلوکار نہیں بننا چاہتا تھا لیکن بن گیا۔ جنید گلوکار بنے اور ایسے گلوکار بنے کہ 2003 میں بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق ان کا ملی نغمہ 'دل دل پاکستان' دنیا کا تیسرا مقبول ترین گیت قرار پایا۔ آج دل دل پاکستان کو ملک کا دوسرا قومی ترانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ بالی وڈ نے 'دل دل ہندوستان' کے روپ میں مکھی پر مکھی مارنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ رپورٹ کے مطابق جنید جمشید گلوکاری کی طرف منصوبہ بندی سے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے گلوکاری اپنے بھائی ہمایوں کی وجہ سے شروع کی۔ 'میں گٹار بجاتا تھا وہ گاتا تھا۔ جب وہ نہیں ہوتا تھا تو میں اس کے گانوں کی ریکارڈنگ مسلسل سنا کرتا تھا، اور ساتھ ساتھ گاتا رہتا تھا۔ اس طرح میں بھی گانے لگا، حالانکہ اس کی آواز مجھ سے کہیں اچھی ہے۔' اسی زمانے میں اسی اتفاقیہ گلوکار پر موسیقار روحیل حیات کی نظر پڑ گئی، جنھوں نے جنید کو اپنے ساتھ گانے کی دعوت دی۔ بقول ان کے مجھے 'شروع ہی میں بےحد تخلیقی گروہ مل گیا جس میں سلمان احمد، روحیل حیات، شہزاد، نصرت حسین، رضوان الحق شامل تھے۔ میں ان سب کو اپنا گرو مانتا ہوں۔' اس گروہ کی صحبت میں جنید جمشید کی وہ تربیت ہوئی جس نے نامور موسیقار سہیل رانا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا: 'میں نے اپنی پروفیشنل زندگی میں تم جیسا 'فینامنا' نہیں دیکھا۔' ان نوجوانوں کا قائم کردہ میوزک بینڈ کو بڑی آسانی سے پاکستان کا مقبول ترین میوزک بینڈ کہا جا سکتا ہے۔ ان کے گرو شعیب منصور نے انھیں واپس لانے کی بڑی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن جنید کا دل اب گلیمر کی دنیا سے اوب چکا تھا۔ اس بات نے شعیب کو اس قدر سیخ پا کیا کہ انھوں نے اسی موضوع کو اپنی پہلی فلم 'خدا کے لیے' میں بھی چھیڑا۔
جنید کی باتیں