شہریوں کی دادرسی، سیشن عدالتوں میں رائج ’’جسٹس آف پیس‘‘ نظام مزید مؤثر بنانے کا فیصلہ
لاہور(ایف ایچ شہزاد سے) اندراج مقدمہ، حبس بے جا اور ہراساں کرنے کے خلاف شہریوں کی داد رسی کیلئے سیشن عدالتوں میں رائج’’ جسٹس آف پیس‘‘ کے نظام کو مزید موثر بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ذمہ دار عدالتی ذرائع کے مطابق جوڈیشل تنظیموں، وکلاء اور بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے ارسال کی گئی تجاویز کا جائزہ لے کر ضابطہ فوجدار ی میںترامیم کیلئے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔جس کا مقصد22اے22بی کے تحت سائلین کی داد رسی،پولیس کے احتساب اور سیشن عدالتوں میں وقت کا ضیاع روکنے کو یقینی بنانا ہے۔اعلی عدلیہ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے دس ماہ تک 37,513افراد کو پولیس نے داد رسی فراہم کرنے سے انکار کیا جس کے خلاف37اضلاع کی سیشن عدالتوں میں اندراج مقدمہ،حبس بے جا اور ہراساں کئے جانے سے متعلق درخواستیں دائر کی گئیں۔ قانونی حلقوں نے ماتحت عدالتوں سے22۱ے22بی کی رٹ درخواستوں میں جوڈیشل اختیارات دینے کی تجویز دی ہے تاکہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکے۔وکلاء کے مطابق22اے22بی کی رٹ درخواستوں میں فاضل عدالتیں درخواست گذار کا بیان ریکارڈ کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی ہدائت کرتی ہیں جوضابطہ فوجداری کے سیکشن154 میں پہلے سے ہی موجود ہے۔یوں ضابطہ فوجداری میں 22اے22بی اور سیکشن154کی ایک ہی نوعیت ہے۔اندراج مقدمہ،حبس بے جا اور ہراساں کرنے کے خلاف دائر زیادہ تر درخواستوں میں پولیس عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی۔ جس کی بنیادی وجہ سیشن عدالتوں کی طرف سے جاری کئے گئے احکامات انتظامی نوعیت کے ہونا ہے۔اس لئے سائلین کو سیشن عدالتوں کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔22اے22بی کی رٹ دائر کرنے سے پہلے ایس ایس پی کو درخواست دے کر کمپیوٹرائزڈ ڈائری نمبر کے حصول کو لازمی قرار دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے تاکہ پولیس کو درخواست دئیے بغیر دائر کی جانے والی رٹ پیٹیشنز کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ ایک اور تجویز کے مطابق پرچہ غلط ثابت ہونے پر درخواست دائر کرنے والے کومتعلقہ جرم کی نصف سزا دی جائے اور ضابطہ فوجداری کے سیکشن182میں بھی ترمیم کی جائے۔ اندراج مقدمہ میں زیادہ تر درخواستوں میں پولیس سائلین کی یہ کہہ کر داد رسی نہیں کرتی کہ آپ نے عدالت سے رجوع کیوں کیا۔ پولیس عدالتی احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائلین کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ154کے تحت بیان ریکارڈ کر کے قرار دے دیتی ہے کہ وہ پہلے تفتیش کرکے اندراج مقدمہ کے بارے میں غور کریں گے۔ہراساں کرنے کے خلاف درخواستیں دائر ہونے کے بعد کئی سائلین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے دیگر مقدمات میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔شہری عدالتی بیلف کے زریعے جن پولیس اہلکاروں کی غیر قانونی تحویل سے بازیاب ہوتے ہیں ان کے خلاف محکمانہ انکوائریاں سال ہا سال تک چلتی رہتی ہیں۔ عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیشن کورٹس میں اپیلوں کے علاوہ ٹرائل بھی کئے جاتے ہیں جبکہ ماتحت عدالتوں میں ججز کی پہلے ہی کمی ہے۔ان عدالتوں میں22اے اور22بی کے تحت دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے روٹین کے مقدمات بھی متاثر ہوتے ہیں۔