میڈیا ہیجان سے دباﺅ میں آ کر یا کسی کو خوش کرنے کیلئے فیصلے نہیں کر سکتے : چیف جسٹس
لاہور/ اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ عدلیہ مکمل آزاد ہے کسی دبا¶ کا شکار نہیں۔ کسی کو خوش کرنے یا میڈیا پر ہیجان سے دبا¶ میں آکر فیصلے نہیں کرسکتے۔ وہ لاہور میں خطاب کر رہے تھے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا مہذب قوم بننے اور ترقی کیلئے معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ ادارے ناکام ہوجائیں تو عدلیہ پر بھاری ذمہ داری آ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا عدالت عدلیہ نے تاریخی طور پر انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کےلئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا تاریخی اعتبار سے عدالت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون کی بہترین تشریح کی۔ لاہور ہائی کورٹ کی 150 سال کی تکمیل پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے میں خوشحالی اور معاشی ترقی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور گڈ گورننس قائم ہو۔ ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو اور میرٹ کے اصول پر عمل درآمد ہو ۔ میں افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے قائد اعظم کے فرمان کو بھلا دیا جس میں انہوں نے حکومت کی اولین ذمہ داری قرار دیا تھا کہ ملک سے نا انصافی ، رشوت ستانی ، بد عنوانی اور اقربا پروری کے خاتمے کو یقینی بنائے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ آج ہم اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں لا قانونیت اور دہشت گردی کو فروغ ملا اگر ہمیں ایک مہذب قوم بننا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں ان تمام بُرائیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ دیگر ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو جائیں تو عدلیہ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ ایک طرف تو اسے فریقین کے مابین تنازعات اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کی آئےنی اور قانونی ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اسے عوامی بہبود کے معاملات میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بھی کارروائی کرنا پڑتی ہے۔ جہاں بھی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی ہو سب کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ عدالت عالیہ ہمیشہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے نیآئےنی اور قانونی ذمہ داری کو بطریقِ احسن ادا کیا ہے۔ تقریب میں نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ عدالت ِ عالیہ لاہوراور دیگر عدالتوں کے جج صاحبان ،اٹارنی جنرل ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے شرکت کی ۔ چیف جسٹس جمالی نے مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو ملک کی قدیم ترین عدالت ہونے کی وجہ سے نہ صرف ایک تاریخی حیثیت بلکہ عدلیہ میں بھی منفرد مقام حاصل ہے۔ کوئی بھی ادارہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور ناکامیوںکا جائزہ لے کر در پیش مشکلات سے بہتر انداز میں نبردآزما ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک دوسری اہم بات یہ ہے کہ سب سے بڑی لعنت جس سے انڈیا بھی متاثر ہے۔ وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ در حقیقت یہ ایک زہر ہے۔ ہمارے لئے اس سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ضروری ہو گا اور مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ اگلی چیز جو میرے ذہن میں آ رہی ہے وہ ہے اقربا پروری اور مفاد پرستی۔ یہاں میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں کبھی بھی اقربا پروری، مفاد پرستی اور اثر و رسوخ ، چاہے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مجھ پر ڈالا جائے، برادشت نہیں کروں گا۔ ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے اور نظامِ حکومت کو موثر انداز میں چلانے کو یقینی بنانے کے لئے آئینِ پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا ہے ۔ تقسیمِ اختیارات کے ذرےعے اداروں کے مابین تحدید و توازن (Checks & Balances) کا نظام قائم ہوتا ہے جو کہ جمہوریت کی اساس ہے ۔ اس اصول کے تحت مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کو وضع کردہ اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ کسی بھی ادارے کو اپنی مقررہ حد سے تجاوز کرنے اور دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح کوئی بھی ادارہ مطلق العنان نہیں بن سکتا۔ البتہ عدلیہ کو عدالتی نظر ثانی کے تحت اس بات کا اختیار تفویض کیا گیا ہے کہ وہ مقننہ کے بنائے ہوئے قانون اور انتظامیہ کی کسی بھی کارروائی کا جائزہ لے اور اگروہ قانون یا آئین کی کسی شق سے متصادم ہو یا بنیادی حقوق پر قدغن عائد کرتا ہو تو اُسے کالعدم قرار دیں۔ اس سلسلے میں عدلیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے ان اختیارات کا محدود استعمال کرے اورصرف کسی سنگین آئینی یا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں ہی کوئی ایسا حکم جاری کرے۔ وقائع نگار خصوصی کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ عدالتیں مکمل آزاد ہیں ۔ ہم کسی دباﺅ کا شکار ہو کر فیصلے نہیں کرتے۔کوئی بھی ادارہ اپنی مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔ نامزد چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدلیہ کے اختیارات لامحدود نہیں۔ ہمیں صرف فیصلے نہیں قانون و آئین کے مطابق انصاف کرنا ہوتا ہے۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ خود احتسابی بہت ضروری ہے اور اس پر کبھی سمجھوتہ نہیںکیا جاسکتا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آ ج کی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرنا میرے لئے باعث افتخار ہے۔ انہوں نے کہا کہ رشوت ستانی، بلیک مارکیٹنگ اور اقربا پروری سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ قائد اعظم کی سوچ اور انکے اصولوں کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ عدلیہ کو اپنی ذمہ داریاںبطریق احسن سر انجام دینے کےلئے بار کے مکمل تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ باراس تمام ذمہ داریوں کی انجام دہی کےلئے بنچ کے شانہ بشانہ رہے گی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو شاندار تقریبات کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتاہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ جج کا کام محض مقدمات کونمٹانا نہیں بلکہ اسے کیس سے مکمل انصاف کرناچاہیے۔ ہمیں قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے انصاف فراہم کرناہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آ ج امید کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے آئندہ کے فیصلے ماضی سے زیادہ سے بہتر اور پہلے کی طرح تمام ہائیکورٹس سے بہترین ہوں گے۔ جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سیدمنصور علی شاہ نے کہا کہ وہ تمام شرکاءکی کانفرنس میں موجود گی پر تہہ دل سے مشکور ہیں۔ آج ہم نے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہے کہ اس ادارے کو مزید مضبوط بنانے کےلئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ عدلیہ صرف ہائی کورٹ نہیں، وکلائ، ضلعی عدلیہ اور سٹاف سب مل کر عدلیہ کا ادارہ مکمل کرتے ہیں۔ ہماری سوچ اجتماعی ہونی چاہیے، ادارے کو مقدم رکھنا چاہیے۔ فرد کی اہمیت ضروری ہے لیکن اتنی نہیں کہ اداروں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ آج ہم نے نظام کی بہتری کےلئے اصول وضع کرنا ہے اور ضابطہ کار بنانا ہے۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے کو آگے لے کر جانے کےلئے خود احتسابی بہت ضروری ہے اور اس پر کبھی سمجھوتہ نہیںکیا جاسکتا۔ ہم کل یہاں نہیںہوں گے لیکن ادارہ یہیں ہوگا اور کل ہماری شفافیت اور میرٹ کاتقابلی جائزہ لیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آج یہاںتمام ادارے موجود ہیں اور میں ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ اداروں کی آپس میں کور آرڈینیشن ہونی چاہیے۔ اداروںکے درمیان تمام معاملات بات چیت سے حل ہونے چاہیں اور ادارے اپنی حدود کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
چیف جسٹس