عوامی تحفظ اور پولیس کے اقدامات
زن، زر اور زمین میں سے وجہ کوئی بھی ہو، مجرمانہ ذہنیت میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اخبارات مجرمانہ کارروائیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور نشانہ بننے والی خلق خدا پریشان ہے۔ صحت تعلیم کے بعد امن و امان ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے اور ضرورت بھی۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی صوبے کے طویل عرصے سے برسراقتدار حکمران کے طور پر یقینا یہ خواہش رہی ہے کہ وہ امن و امان قائم رکھنے والے ایک مثالی وزیراعلیٰ کے طور پر تاریخ میں اپنا نام رقم کریں۔ شاید اسی لئے انہوں نے پولیس کے مینجروں کو زیادہ فنڈز مہیا کئے ہیں۔ حاضر سٹاک میں سے بہترین شخصیتوں کو اوپر کے اہم مناصب پر ذمہ داریاں سونپی ہیں اور نتائج بھی مانگے ہیں۔ نتائج ملے بھی ہیں مگر وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاید مجرم بے لگام ہیں اور ان کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں۔ ایسا تاثر کیوں ابھرتا ہے؟ دو لاکھ پانچ ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے صوبہ پنجاب میں آٹھ سے نو کروڑ بلکہ اب تو اس سے بھی کچھ زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں 1861ءکے دور سے کھڑے کئے گئے پولیس کے ڈھانچے میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلا گیا ہے بلکہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں تو پولیس کے ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ پنجاب سیف سٹی پروجیکٹ، پنجاب پولیس کمانڈ کنٹرول سنٹر، پولیس ریسپانس یونٹ، پولیس سٹیشن ریکارڈ کنٹرول سسٹم کمپلینٹس مینجمنٹ سسٹم، کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم، فنگر پرنٹس ڈاٹا بیس، کریمنل میسپنگ، ڈالفن فورس، کاﺅنٹر ٹیریرازم اور اس طرح مختلف محاذوں سے جرائم کے خاتمے اور امن و امان اور شہریوں کو جان و مال کی حفاظت کے لئے اقدامات کئے گئے تو یقیناً ہزاروں مجرمانہ کارروائیوں کا راستہ رکا ہو گا مگر یہ سب کچھ سامنے نہیں آتا البتہ ہربنس پورہ میں اداکارہ کے قتل، سمن آباد ڈکیتی جیسے دو تین واقعات کو جو یقیناً افسوسناک تھے، اتنا اچھالا گیا کہ پولیس کی مجموعی کارکردگی کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔ ”خدمت اور حفاظت“ جیسا ماٹو رکھنے والی پولیس کے موجودہ سربراہ مشتاق احمد سکھیرا کا یہ کہنا درست ہے کہ عوامی سطح پر جوابدہ، جمہوری طریقے سے کنٹرول ہونے، سیاسی طور پر غیر جانبدار اور پیشہ وارانہ طور پر مستعد ہو کر پنجاب پولیس عوام کی رات دن خدمت کر رہی ہے۔ جائز تنقید کسی بھی ادارے کے ارکان کو اپنی خامیوں کو درست کرنے میں مدد دیتی ہے اور غیر ضروری یا آج کل کی اصطلاح میں ریٹنگ بڑھانے کے لئے شور و غوغا پر مبنی تنقید دیانتدار اہل کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔ جرائم کے خاتمے میں غفلت برتنے والوں کے خلاف محکمانہ احتساب اور فرض شناس اہل کاروں کی حوصلہ افزائی اچھی بات ہے اور ڈی آئی جی اپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف نے صرف پندرہ دنوں میں لاہور کی سطح پر ایک درجن سے زائد تھانیداروں کے خلاف کارروائی، معطلی اور جرمانوں کے ساتھ ساتھ متعدد سب انسپکٹروں کو ہزاروں روپے انعام اور سی سی II سرٹیفکیٹ دیئے۔ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد امین وینس کی طرف سے بھی اپنی ”سپاہ“ پر مسلسل نظر حالات کو بہتری کی طرف لائی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پولیس میں سو فیصد سب کچھ ٹھیک ہے تھانہ کلچر اب بھی مختلف سطحوں پر خاص طور پر دیہی سطح پر اصلاح طلب ہے۔ کہیں کہیں سیاسی مداخلت عروج پر ہے۔ مگر مجموعی طور پر پولیس کو عوامی خدمت کے حوالے سے تبدیل بھی کیا گیا ہے۔ تھانوں میں رپورٹنگ ڈیسک ہو یا ضلع کی سطح پر پولیس فسیلی ٹیٹنگ سنٹر، سینکڑوں خواتین کی پولیس سروس میں شمولیت ہو یا شکایات کی دوسری سہولتیں، وزیراعلیٰ کی کوشش ہے کہ امن و امان کے حوالے سے صورت حال بہتر ہوتی چلی جائے۔ ابھی بھی لوگ 1122 یا 15 جیسے امدادی رابطے کے نمبروں سے آگاہ ہیں مگر 8787 یعنی آئی جی پولیس کے پاس شکایت کا نمبر بہت کم کو یاد ہے۔ صوبے میں جس رفتار سے مجرمانہ ذہنیت بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے حکومت کے ساتھ عوام کو بھی مستعد ہونے کی ضرورت ہے اس لئے کہ عوام اور پولیس مل کر ہی جرائم سے مکمل پاک ماحول کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔